پاکستان میں چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد کا سفر رولر کوسٹر کی طرح بن گیا ہے، ایک دن یہ امید بندھتی ہے کہ میگا ایونٹ اب پاکستان میں ہی منعقد ہوگا تو دوسرے دن بھارت سے کوئی بیان آجاتا ہے کہ جب تک بھارتی حکومت اجازت نہیں دے گی تب تک بھارتی ٹیم پاکستان نہیں آئے گی اور بھارتی حکومت کیا چاہتی ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین محسن نقوی پُرامید ہیں کہ یہ ایونٹ ہر حال میں پاکستان میں ہی کھیلا جائے گا اور اسے بہتر طریقے سے کروانے کے لیے پاکستان کے 3 بڑے اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کا کام بھی تیزی سے جاری ہے، لیکن جب ہم یہاں اس قدر امید سے ہیں، عین اسی موقعے پر یہ خبر بھی آتی ہے کہ بی سی سی آئی کے جنرل سیکرٹری جے شاہ اب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے بلامقابلہ منتخب چیئرمین بن گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری جے شاہ آئی سی سی کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب
بس پھر کیا تھا، ان خبروں کے فوری بعد پاکستان میں چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟ تو ایسا اس لیے کیا جارہا ہے کہ پاکستان کو یہ امید تھی کہ اگر بھارتی کرکٹ بورڈ ٹیم پاکستان بھیجنے کے لیے رضامندی کا اظہار نہیں کرے گا تو اسے منانے کے لیے آئی سی سی اپنا کردار ادا کرے گی کیونکہ یہ ایونٹ ہی آئی سی سی کا ہے، مگر جب آئی سی سی کے چیئرمین خود بھارتی ہوں گے تو وہ بھارتی کرکٹ بورڈ کو کس طرح سمجھائیں گے؟
یہی وجہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے ابھی سے یہ ایونٹ پاکستان سے باہر بھجوا دیا ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جس طرح ایشیا کپ ہائبرڈ طرز پر معنقد ہوا تھا یعنی بھارت کے میچز سری لنکا میں کھیلے گئے تھے بالکل اسی طرح اب چیمپیئنز ٹرافی بھی ہائبرڈ طرز پر کھیلی جائے گی اور بھارت کے میچ کسی اور ملک میں منعقد ہوں گے۔
اس پورے معاملے میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جے شاہ بلامقابلہ منتخب آئی سی سی کے چیئرمین بنے ہیں یعنی پاکستان نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی اور اسی پہلو کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف نے بھی اٹھایا مگر مثبت پہلو سے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ طے شدہ منصوبے کی بنیاد پر ہوا ہے، یعنی پاکستان جے شاہ کی حمایت کرے گا اور جے شاہ بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
مزید پڑھیں: کیا بھارت نے چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت کے لیے دورہ پاکستان کا فیصلہ کر لیا؟ جے شاہ نے خاموشی توڑ دی
لیکن دوسری جانب پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان باسط علی کا مؤقف کچھ اور ہے، وہ کہتے ہیں کہ جے شاہ کے لیے پہلا ہی اسائمنٹ مشکل ثابت ہونے والا ہے۔ باسط علی نے کہا کہ چونکہ جے شاہ سیاسی پس منظر رکھتے ہیں اس لیے ان کے لیے یہ کسی بھی طور پر آسان نہیں ہوگا کہ وہ بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے متعلق اپنا کردار ادا کرسکیں۔ سابق کپتان نے یہ بھی کہا کہ اس اہم ترین موقعے پر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بطور آئی سی سی چیف کیا جے شاہ خود کو بیلنس پوزیشن پر رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔
سینیئر اسپورٹس جرنلسٹ سہیل عمران سے جب اس پورے معاملے پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ جے شاہ اب مکمل طور پر آئی سی سی کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں انجام دیں گے اور ان کا بھارتی کرکٹ بورڈ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ماضی میں جب ایشیا کپ سے متعلق مسائل نے جنم لیا تھا اور ہائبرڈ نظام پر اتفاق ہوا تھا اس وقت جے شاہ بی سی سی آئی کے سیکرٹری بھی تھے اور ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے صدر بھی، مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔
سہیل عمران نے کہا کہ جے شاہ اب اکیلے فیصلے نہیں کریں گے بلکہ ان کو لانے والے انگلینڈ کرکٹ بورڈ اور آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کے افراد بھی ان کے ساتھ ہوں گے اور انگلیںڈ اور آسٹریلیا دونوں ہی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کرچکی ہیں اور انہیں کسی بھی طور پر مشکل پیش نہیں آئی، لہٰذا ایسی صورت میں جے شاہ ان دونوں بورڈز کو کس طرح راضی کریں گے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں جاسکتی؟
مزید پڑھیں: جے شاہ کو لاحق سیکیورٹی خدشات، شاہد آفریدی نے لاجواب کر دیا
تاہم، انہوں نے اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار ضرور کیا کہ اگر امن و مان کی صورتحال بگڑتی ہیں اور ٹریول الرٹ جاری ہوتا ہے تو پھر مشکلات پیش آسکتی ہیں بصورتِ دیگر پاکستان میں ایشیا کپ کے انعقاد کے امکانات روشن ہیں۔
دوسری طرف سمیع چوہدری کی رائے مختلف تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت پہلے بھی آئی سی سی پر حاوی تھا اور اب چیئرمین کا عہدہ ملنے کے بعد صورتحال مزید بھارت کے حق میں چلے گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس سب سے اچھا بہانہ یہ ہے کہ ان کی حکومت پاکستان جانے کے لیے اجازت نہیں دے رہی اور ایسی صورت میں آئی سی سی بھی زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔
سمیع چوہدری نے کہا کہ چیمپیئنز ٹرافی کا انعقاد تو یقینی ہے، تاہم اب سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح ہوگا؟ مکمل طور پر پاکستان میں، پاکستان سے باہر یا پھر ہائبرڈ ماڈل کے طور پر۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ جو دوسرا پلان ہے وہ یہ کہ باقی ساری ٹیمیں پاکستان میں اپنے میچ کھیلیں گی جبکہ بھارت اپنے میچز متحدہ عرب امارات میں کھیلے گا۔ ایسی صورت میں جس ٹیم نے بھی بھارت سے میچ کھیلنے ہیں وہ پاکستان سے امارات سفر کرے گی اور اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ میزبان پاکستان بھی بھارت کے خلاف اپنے مقابلے امارات میں ہی کھیلے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ غالب امکان ہے کہ بھارتی ٹیم سیمی فائنل یا فائنل تک پہنچے، ایسی صورت میں ناک آؤٹ مقابلے بھی پاکستان میں نہیں کھیلے جاسکیں گے۔