پاکستان میں گزشتہ روز ملک بھر میں تاجر برادری نے بجلی کے زائد بلوں اور حکومت کی جانب نے نئے ٹیکس کے نفاذ پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی۔ تاجروں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک دن کی ہڑتال سے مجموعی طور پر ملک کی معیشت کو 50 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔
وی نیوز نے تاجر رہنماؤں اور معاشی تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ شٹر ڈاؤن ہڑتال سے دراصل ایک دن میں کتنا نقصان ہوا ہے۔
معاشی تجزیہ کار شعیب نظامی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کہ کتنا نقصان ہوا البتہ یہ ہے کہ سیلز ٹیکس کی وصولی نہ ہونے سے جو نقصان ہوا ہے اس کا تخمینہ لگانا آسان ہے۔
ہی بھی پڑھیں: کل تاریخی ہڑتال ہوئی، حکومتی دباؤ کے باوجود تاجر متحد رہے، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم
شعیب نظامی نے کہا کہ رواں مالی سال میں حکومت کو 12 ہزار ارب روپے کا ٹیکس وصول کرنا ہے جس میں سیلز ٹیکس تقریباً 6 ہزار ارب روپے کا ہوگا یعنی اس مد میں ہر ماہ تقریبا ساڑھے 400 سے 500 ارب روپے جمع ہورہے ہیں اور یومیہ کے حساب سے یہ وصولی تقریباً 10 سے 15 ارب تک بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جن افراد نے ہڑتال کے روز اشیا کی خریداری نہیں کی وہ اگلے دن کر لیں گے اس لیے اس مد میں 15 ارب روپے تو نہیں لیکن 10 ارب روپے شٹر ٹاؤن ہڑتال کی وجہ سے وصول نہیں ہوپائے ہوں گے۔
شعیب نظامی کے مطابق حکومت پیٹرولیم لیوی سے ماہانہ 100 ارب روپے وصول کرتی ہے جو تقریباً ساڑھے 3 ارب روپے یومیہ بنتا ہے اس لیے اگر ہڑتال کے باعث گاڑیاں کم استعمال ہونے سے اس مد میں حکومت کو مجموعی طور پر 10 سے 11 ارب روپے کا نقصان ہوا ہوگا۔
’تاجر مذاکرات کے نتیجے میں طے ہونا والا ٹیکس ہی دیں گے‘
آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ریکارڈ تو وزارت تجارت کے پاس ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں ایک روز میں کتنے کھرب روپے کا لین دین ہوا ہے اور کتنے ارب روپے ٹیکس کی مد میں وصول کیے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت تو فی الحال ہر شخص اپنا اندازہ لگا رہا ہے کہ ہڑتال سے معیشت کو کتنا نقصان ہوا ہے لیکن ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ نقصان تاجروں کی وجہ سے نہیں ہوا یہ حکومت کی تاجر دوست اسکیم کے باعث ہوا ہے، تاجر برادری حکومت کو بتا رہی ہے کہ جس طرح سے آپ ٹیکس کا نفاذ کر رہے ہیں یہ ناقابل عمل ہے۔
مزید پڑھیے: تاجروں کی ہڑتال، حکومت دکانداروں سے کتنا ٹیکس وصول کرنا چاہتی ہے؟
اجمل بلوچ نے کہا کہ حکومت نے ایک کروڑ روپے کی دکان پر ساڑھے 3 لاکھ روپے سالانہ ٹیکس عائد کر دیا ہے جبکہ اس وقت ایک کروڑ روپے میں ملنے والی دکان انتہائی چھوٹی ہوتی ہے جبکہ بڑی مارکیٹوں اور بازاروں میں موجود دکانوں کی قیمت 8 سے 10 کروڑ روپے ہے اس طرح 10 کروڑ روپے کی دکان کی آمدنی کا تخمینہ حکومت نے اپنے طریقے سے لگاتے ہوئے کہا ہے کہ 10 کروڑ روپے کی دکان کی آمدن ایک کروڑ روپے ہے اور ایک کروڑ روپے آمدنی پر اس دکاندار کو 35 فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔
صدر آل پاکستان انجمن تاجران نے کہا کہ کاروباری طبقہ پہلے سے بہت ٹیکس ادا کرتا ہے سب سے پہلے دکان کا مالک پراپرٹی ٹیکس ادا کرتا ہے پھر جو ماہانہ کرایہ وصول کیا جاتا ہے اس پر انکم ٹیکس ادا کیا جاتا ہے جبکہ دکان میں موجود کرائے دار بھی سیلز ٹیکس ادا کرتا ہے اب اگر اس دکاندار پر فکسڈ ٹیکس عائد کر دیا جائے گا تو یہ اس کے ساتھ نا انصافی ہوگی کیونکہ کاروبار ہے یا نہیں ہے اس میں ٹیکس ادا کرنا ہوگا جو کاروباری حضرات کے ساتھ زیادتی ہے۔
اجمل بلوچ نے کہا کہ حکومت نے جب تاجر دوست اسکیم متعارف کرائی تھی تو اس وقت کہا گیا تھا کہ اس اسکیم میں صرف کاروباری شخصیات کو رجسٹرڈ کیا جائے گا اور جو نان فائلر ہیں ان کو فائلر بنایا جائے گا لیکن اب جب ہماری سپورٹ سے تمام تاجروں نے اپنی رجسٹریشن کرا لی ہے تو اب انہوں نے تمام دکانوں پر فکسڈ ماہانہ ٹیکس عائد کر دیا ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کی شرائط پر کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: سیمنٹ ڈسٹری بیوٹرز کی ہڑتال جاری، سپلائی ہنوز متاثر
انہوں نے کہا کہ حکومت ہمیں یہ تو بتاتی ہے کہ یہ سب آئی ایم ایف کے کہنے پر کیا جا رہا ہے لیکن یہ نہیں بتاتی کہ آئی ایم ایف سے جو رقم قرض لیا ہے وہ خرچ کہاں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک حکومت ہمارے ساتھ مذاکرات نہیں کرتی یہ معاملات حل نہیں ہو سکتے۔
صدر آل پاکستان انجمن تاجران نے واضح کیا کہ تاجر مذاکرات میں طے کیے جانے کے بعد ہی ٹیکس ادا کرے گا۔