پاکستان نے کہا ہے کہ اس نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اکتوبر میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی باضابطہ دعوت دے دی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان حکومت کے اجلاس میں شرکت کی باضابطہ دعوت دے دی ہے۔
پاکستان اکتوبر میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان حکومت کے دو روزہ اجلاس کی میزبانی کرے گا کیونکہ اس وقت پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان حکومت کی کونسل (سی ایچ جی) کی صدارت کر رہا ہے۔
15 اور 16 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے ممالک کے سربراہان کو دعوت نامے بھیجے گئے ہیں۔
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی دعوت نامہ بھیج دیا گیا ہے۔
بھارت نے ابھی تک دعوت کا جواب نہیں دیا
اگرچہ کچھ ممالک پہلے ہی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی تصدیق کر چکے ہیں لیکن شرکا کی باضابطہ فہرست جاری نہیں کی گئی ہے۔بھارت نے ابھی تک اس دعوت کا جواب نہیں دیا ہے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں پوچھے جانے پر ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی بھارت کے ساتھ براہ راست دوطرفہ تجارت نہیں ہے۔
گزشتہ سال بھارت نے ورچوئل فارمیٹ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کی تھی اور پاکستان کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی تھی۔
تاہم پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے مئی 2023 میں گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے 2 روزہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کا دورہ کیا تھا، جو تقریباً 12 سالوں میں بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ تھے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کی خبروں کی تردید
اس سے قبل یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی دعوت مسترد کردی ہے۔ تاہم وزارت خارجہ نے ایک سرکاری بیان میں ان خبروں کی تردید کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ کئی ذرائع ابلاغ یہ خبریں چلا رہے ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے یا وزیر خارجہ پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ وزارت خارجہ نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور اپیل کی جاتی ہے کہ اس سلسلے میں قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔
بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے، پاکستان
بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ چند سالوں سے کشیدگی مسئلہ کشمیر کو لے کر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اکثر دونوں ممالک کے درمیان حالات معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کرتا رہا ہے اور بھارت پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے باز رہے۔
وفاقی دارالحکومت میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے نسیم زہرہ بلوچ نے تصدیق کی ہے کہ 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیر اعظم کو باضابطہ دعوت دے گئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات نہیں ہیں۔
نریندر مودی کا ہر حال میں دعوت دی جائے گی، خواجہ آصف
واضح رہے کہ اسلام آباد کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان کو دعوت نامے کی باضابطہ تصدیق ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دو روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ پاکستان وزیر اعظم مودی کو علاقائی سربراہ اجلاس میں ضرور مدعو کرے گا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ میزبان ملک سربراہان مملکت کو مدعو نہ کرنے کا انتخاب نہیں کرسکتا، کسی رکن ملک کو دعوت نہ دینا نامناسب ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کسی بھی میزبان رکن ملک کے ایسے کسی اقدام کو قبول نہیں کرے گی۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ جموں کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی قراردادوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جموں کشمیر کے تنازع کا حتمی حل اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے عوام کی مرضی کے مطابق کیا جائے گا۔
اس پس منظر میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ کوئی اور عمل کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے کے متبادل کے طور پر کام نہیں کرسکتا۔
ٹی ٹی پی سے مذاکرات نہیں ہوں گے
ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت دہشتگرد گروہوں کی موجودگی کی تصدیق اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی رپورٹس سے ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم افغان حکام سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان دہشتگرد گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے اور ان کی سرگرمیوں کو روکیں گے جو پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔
سی پیک منصوبوں پرحمایت
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے بارے میں پوچھے جانے پر ترجمان نے کہا کہ یہ ایک انقلابی منصوبہ ہے جس نے پاکستان کی قومی ترقی میں مثبت اور شفاف کردار ادا کیا ہے۔ سی پیک منصوبے کو تمام صوبوں کی حمایت ہے۔
انہوں نے تمام چینی شہریوں، منصوبوں اور اداروں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔