پاکستان خصوصاً بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں سینیٹر کامران مرتضیٰ اور ثنا اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا واحد حل آئین کے آرٹیکل 4 پر عملدرآمد ہے، وزیر اعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ نے بھی بلوچ رہنماؤں سے اتفاق کیا ہے۔
اختر مینگل آئین و ریاست کو دل سے مانتے ہیں، رانا ثنا اللہ
جمعرات کو ایک ٹی وی مباحثے کے دوران وزیراعظم پاکستان کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ نے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی ) کے سربراہ اختر مینگل کے بلوچستان میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے کہا ہے کہ اختر مینگل کی اگر کوئی ناراضی ہے تو ان کی بات سنی جانی چاہیے، اختر مینگل پاکستان، پاکستان کے آئین اور ریاست کو دل سے مانتے ہیں، انہوں نے ملک کے آئین کے مطابق حلف اٹھا رکھا ہے، وہ ہماری بات مانتے رہے ہیں۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ کوئی بھی تنظیم یا کوئی بھی رہنما جو قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر بنیادی حقوق کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ کبھی بھی معصوم اور بے گناہ لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل نہیں کرتا، وہ خاتون جس کے ساتھ 3 بچے بھی تھے اس کا شناختی کارڈ چیک کرکے اسے بس سے اتار کر گولیاں ماری گئیں، میرا سوال ہے کہ کیا بلوچستان کے حوالے سے خواتین اور معصوم بچے پالیسیاں بناتے ہیں؟ وہ لوگ جو اس طرح کے کاموں میں ملوث ہیں وہ کسی بھی طرح کی رعایت کے مستحق نہیں ہو سکتے۔
سرفراز بگٹی آئین و قانون پر عملدرآمد کروائیں،بھرپور ساتھ دیں گے
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ان لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو ایک دہشتگرد کے ساتھ ہوتا ہے، جو لوگ آئین و قانون کی بالادستی یا اس پر عملدرآمد کی بات کرتے ہیں؟ آج سرفراز بگٹی وزیر اعلیٰ بلوچستان ہیں، ثنا اللہ بلوچ، سینیٹر کامران مرتضیٰ بھی پارلیمنٹ میں ہیں وہ آئین و قانون پر عملدرآمد کروائیں ہم بھرپور ساتھ دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:آرمی چیف کی قیادت میں ملک سے دہشتگردی کو ختم کردیں گے، وزیراعظم
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ثنا اللہ بلوچ اور سینیٹر کامران مرتضیٰ کی باتوں سے کوئی اختلافات ہو ہی نہیں سکتا، وفاقی حکومت ملک کو مضبوط و مستحکم کرنے کے ہر عمل کے لیے دو قدم آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے۔
رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیئشن کمیشن صوبائی سطح پر بننا انتہائی ضروری ہے، جس میں صوبہ سے ہی لوگ شامل ہوں،تو یہ زیادہ مؤثر ہوگا اس کے لیے انہیں قومی اسمبلی کو خط لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
لاپتا افراد کا معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے، سینیٹر کامران مرتضیٰ
رہنما جمعیت علمائے اسلام و سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی وہی شکوہ دہرایا کہ بلوچستان کے مسائل آج تک حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے دستور کو ماننے والوں سے بات چیت پر گفتگو کی ہے تو وہ بلوچستان کے لیے صرف آئین کے بنیادی حقوق سے متعلق چیپٹر پر ہی عمل درآمد کروا دیں، سارے معاملات حل ہو جائیں گے، لاپتا افراد کا معاملہ بھی انتہائی سنجیدہ ہے اسے بھی فوری حل کیا جانا چاہیے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں آئین کے آرٹیکل4 جو تمام بنیادی حقوق کی ماں ہے اور آرٹیکل 10 اے پر عملدرآمد کروا دیں سارے معاملات ہی حل ہو جائیں گے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی نے بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی کو انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دیدیا
آرٹیکل 4 پر عملدرآمد میں بلوچستان کے تمام مسائل کا حل موجود ہے
انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس آخری موقع ہے اس کے بعد ان کے پاس یہ موقع بھی نہیں رہےگا، آرٹیکل 4 یہی ہے کہ ہمیں آئین اور قانون کے مطابق ڈیل کیا جائے، ہم ہاتھ جوڑتے ہیں کہ ہمیں صرف آرٹیکل 4 کے مطابق ہی ڈیل کیا جائے۔
بلوچستان کوئی نو آبادیاتی علاقہ نہیں، ثنا اللہ بلوچ
رہنما بی این پی اختر مینگل گروپ ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ وزیر اعظم نے آئین کو ماننے والوں سے بات چیت کرنے کا کہا ہے تو وہ بتائیں کہ بلوچستان کے حوالے سے آج تک کون سی آئینی شق پر عمل کیا گیا ہے، وہ کوئی ایک شق ہی بتا دیں۔ بلوچستان کوئی نو آبادیاتی علاقہ نہیں ہے ملک کا ایک یونٹ ہے۔
ثنااللہ بلوچ نے کہا کہ ہمارے ساتھ بیٹھیں ہم بتائیں گے کہ بلوچستان کے حوالے سے کون کون سی شقوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان، سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 21 دہشتگرد ہلاک، 14 جوان شہید
بلوچستان کے حوالے سے اپیکس کمیٹی کو نہیں، پارلیمنٹ کو بات کرنے کی ضرورت تھی، قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبالؒ نے بلوچستان میں کبھی بھی سوشل انجنیئرنگ کی بات نہیں کی۔ 77 سال ہو گئے بلوچستان کو آئین کے مطابق حقوق نہیں دیے گئے۔
موسیٰ خیل سانحہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں
ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ ہم موسیٰ خیل سانحہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، ریاستوں کا کام انتقام لینا نہیں ہوتا، وہ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں خون خرابہ ہوتا ہے، انتشار پھیلتا ہے، بلوچستان میں انتشار کو سمجھنے کا طریقہ کار یہ نہیں ہے کہ آپ اپیکس کمیٹی بٹھا دیں۔
بلوچستان اسمبلی ’داشتا‘ اور یرغمال ہے
ثنا اللہ بلوچ نے الزام لگایا کہ بلوچستان اسمبلی اگر عوام کی مرضی اور منشا کے مطابق تشکیل پاتی تو آج وزیراعظم پاکستان کو یہاں آ کر تقریر کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی، آج بلوچستان آپ کو خوشخبری دے رہا ہوتا لیکن اس وقت تو بلوچستان اسمبلی کو یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے، یہ داشتا اسمبلی ہے اور کچھ اداروں کی ایکسٹینشن ہے، اگر ہم اسمبلی میں نہیں آتے تو پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ لوگ آئین و قانون کو نہیں مانتے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہمارا صوبہ ہمارے اختیار میں نہیں، اگر 77 سالوں میں کئی بلوچستان کے حقوق کی بات ہو رہی ہوتی تو آج یہاں کوئی انقلابی یا خون خرابے والی صورت حال ہی پیدا نہ ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ٹروتھ اور ری کنسیلیئشن کمیشن کے قیام پر میں نے جو قرار داد پیش کی تھی اس پر آج بھی قائم ہوں، بلوچستان اسمبلی قومی اسمبلی کو لکھے کہ وہ ٹروتھ اور ری کنسیلیئشن کمیشن قائم کریں۔