منشا یاد کی یاد میں

پیر 9 ستمبر 2024
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چند روز قبل فیس بک پر عہدِ موجود کے اہم فکشن نگار محمد حمید شاہد کی پوسٹ پڑھی ’5 ستمبر منشا یاد کی تاریخ پیدائش ہے، اگر ان کے سینے میں نصب پیس میکر نے سال 2011 میں کام کرنا چھوڑ نہ دیا ہوتا تو ہم منشا یاد کے ساتھ ان کی 87ویں سالگرہ مناتے۔‘

محمد منشا یاد (منشا یاد) 5 ستمبر 1937 کو شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔ بطور پیشہ ور انجینئر شہر بے مثال اسلام آباد ان کی خدمات کا شہکار ہے۔ اردو اور پنجابی کے بے مثل افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے بند مٹھی میں جگنو (1975)، ماس اور مٹی (1980)، خلا اندر خلا (1983)، وقت اور سمندر (1986)، درخت آدمی (1990)، دور کی آواز (1994)، تماشا (1998)، خواب اور سرائے (2005) معروفِ عام ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں 1972 میں حلقہ اربابِ ذوق کی بنیاد بھی رکھی۔

منشا یاد نے 15 اکتوبر 2011 کو دنیا چھوڑ دی۔ افسانوی ادب میں شہرت کے ساتھ ساتھ، ان کے لکھے ٹی وی ڈرامے جنون، بندھن اور راہیں بہت مقبول ہوئے، تاہم یک قسطی ڈرامے اور بھی ہیں۔ منشا یاد اردو کے واحد افسانہ نگار ہیں جن کے احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا سے بیک وقت خوشگوار تعلقات تھے اور وہ باوقار انداز میں ’فنون‘ اور ’اوراق‘ میں شائع ہوتے رہے، بقول ضیا جالندھری ’منشا یاد کی سینس آف ڈپلومیسی بہت اعلیٰ درجے کی ہے۔‘

’شہرِفسانہ‘ منشا یاد سے اسلام آباد میں ان کی قیام گاہ ’افسانہ منزل‘ میں ہوئی ایک ملاقات کا احوال نذر قارئین ہے:

اپنے ادبی سفرکے حوالے سے بتائیں کب اور کیسے لکھنا شروع کیا؟

مجھے بچپن میں نظمیں اور کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ والدین اگرچہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے مگر مکتبی تعلیم کے طفیل اُردو اور پنجابی کی کتابیں پڑھ لیتے تھے اور گھر میں پنجابی شاعری کی بہت سی دینی اور ادبی کتابیں تھیں۔ والدہ کو، جن کا میرے بچپن ہی میں انتقال ہوگیا، بہت سی کہانیاں اور حکایات یاد تھیں۔

کہانیاں پڑھتے اور سنتے سنتے جب میں ہائی سکول میں داخل ہوا تو لائبریری اور نصاب کی کتابوں کے ذریعے مجھے وافر تعداد میں نظمیں اور کہانیاں پڑھنے کا موقع ملا، جس سے میرے شوق کو جلا ملی اور میں نے چھٹی جماعت میں خود بھی نظمیں اور کہانیاں لکھنا شروع کردیں۔

مزید پڑھیں:منٹو کا واحد پنجابی افسانہ اور احمد ندیم قاسمی

سکول کی بزمِ ادب میں بھی حصہ لیتا تھا اور لائبریریوں سے کرائے پر کہانیوں کی کتابیں بھی پڑھتا تھا۔ دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے میری بہت سی کہانیاں اور نظمیں بچوں کے پندرہ روزہ رسالہ ’ہدایت‘ لاہور میں شائع ہو چکی تھیں۔ معروف شاعر جمیل یوسف (سابق جمیل ہمدم) اور مزاح گو سرفراز شاہد میرے اسی زمانے کے دوست ہیں۔

میٹرک کا امتحان دے کر میں نے کہانیاں اور غزلیں وغیرہ لکھنا شروع کردیں۔ ساتھ ہی ساتھ ادبی رسائل کا مطالعہ بھی شروع کردیا۔ میں گرمی کی چھٹیوں میں ہر ہفتے گاؤں سے لاہور جاتا اور انارکلی کی اولڈ بک شاپس سے بہت سے پرانے ادبی رسائل سستے داموں خرید لاتا اور دن رات پڑھتا اور افسانے لکھ لکھ کر پھاڑتا رہتا۔

یہ دراصل میری مشق کا زمانہ تھا۔ مجھے افسانہ لکھنے کے بعد اطمینان نہ ہوتا تو پھاڑ کر پھینک دیتا لیکن ایک افسانے ’ کنول‘نے خود کو پھاڑے جانے سے بچالیا اور جس روز میں انجینئرنگ کالج میں داخلے کے لیے جارہا تھا۔ یہ افسانہ ماہنامہ ’شمع‘ لاہور کے اکتوبر 1955 کے شمارے میں شائع ہوگیا۔

اس کے بعد آج تک میں سیکڑوں افسانے لکھ چکا ہوں جو پاک و ہند کے قریباً سبھی مقتدر ادبی رسائل اور اخبارات میں چھپ چکے ہیں۔ اب تک میرے افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ نواں مجموعہ تیار ہے، اس کے علاوہ میرا پنجابی ناول’ٹانواں ٹانواں تارا‘ اور افسانوں کی بہت سی انتھالوجیز شائع ہوچکی ہیں۔ جنہیں خاور نقوی ، امجداسلام امجد، طاہر اسلم گورا اور امجد طفیل نے مرتب کیا۔

افسانوں کے انگریزی تراجم پر مشتمل میرا ایک مجموعہ لاہور اور دہلی سے شائع ہوچکا ہے جسے پروفیسر جمیل آذر نے مرتب کیا۔ گذشتہ برس میرا خود کردہ پچاس افسانوں کا ایک انتخاب ’شہرِفسانہ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، اور اب اس کا دوسراحصہ ’شہرِ فسانہ۔۲‘ زیر ترتیب ہے۔ اس میں بھی پچاس افسانے شامل ہیں۔

افسانے کی تعریف کیا ہے نیز اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش ہے کہ نہیں؟

مختصر افسانے کی بہت سی نصابی تعریفیں ہیں اور ہر ایک میں کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی اور اختلاف کا کوئی نہ کوئی پہلو نکل آتا ہے۔ کیونکہ افسانے نے اب تک اتنی شکلیں بدلی ہیں کہ اس کی کوئی ایک مخصوص تعریف ممکن ہی نہیں لیکن میرے خیال میں افسانہ ایسی نثری تخلیق ہے جس میں ناول کی نسبت اختصار کے ساتھ کوئی قصہ بیان کیا گیا ہو اور کم سے کم لفظوں میں کسی کردار کا کوئی ایک پہلو یا کسی ایک واقعہ یا جذبہ کی جامع تاریخ بیان کی گئی ہو۔

مزید پڑھیں:عینی آپا تھیں تو پاکستانی

افسانہ نگاری کے بنیادی اصول کیا ہیں؟

افسانہ کسی واقعہ یا جذبے کو محض بیان نہیں کرتا اس میں لکھنے والے کا تخیل اور نکتہ نظر بھی شامل ہوتا ہے۔ وحدتِ تاثر اور ایجاز و اختصار اس کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں تسلسل، دلچسپی، اس کے تمام اجزا میں باہمی ربط اور اس کا کوئی مقصد ہونا چاہیے۔ اسے نہ تو غیر ضروری طویل ہونا چاہیے کہ اس پر ناول یا ناولٹ کا گمان ہونے لگے اور نہ ہی اس قدر مختصر کہ ذہن پر کسی واقعے، کردار یا جذبے کا تاثر اور نقش قائم ہی نہ ہوسکے۔

افسانہ لکھنے کے لیے موضوع کی تلاش ضروری ہے؟

جی ہاں! بالکل ایسے ہی جیسے آپ نے کہیں جانا ہو تو آپ کو اپنی منزل اور وہاں پہنچنے کا مقصد معلوم ہوتا ہے۔ افسانے میں سب سے اہم چیز اس کا موضوع یا تھیم ہی ہے۔ یعنی لکھنے سے پہلے آپ کو معلوم ہونا چاہیے، آپ اس افسانے کے ذریعے کیا کہنا چاہتے ہیں اور آپ کے افسانے کا مرکزی خیال یا پیغام کیا ہے۔ بہت سے موضوعات پر پہلے سے افسانے لکھے جا چکے ہوتے ہیں آپ کو ان سے بچ کر کوئی مختلف اور نیا موضوع تلاش کرنا پڑتا ہے۔

چھوٹے اور بڑے افسانہ نگار کا تعین کس طرح ہوتا ہے اور یہ تعین کون کرتا ہے؟

ایک صورت تو یہ ہے کہ جس طرح جمہوریت میں لیڈر چنے جاتے ہیں، اسی طرح جن افسانہ نگاروں کے افسانے عوام پسند کرتے اور ان کی کتابیں خریدتے ہیں، انہیں خود بخود قبولِ عام کی سند مل جاتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تسلیم شدہ حیثیت کے مالک اور صاحبِ رائے ادبی نقاد جن افسانہ نگاروں کو بہترین قرار دیں اور وہ واقعی بہترین ہوں تو اس پر دوسرے ادیب، شاعر اور پڑھنے والے ایمان لے آتے ہیں۔

ایک تیسری صورت یہ ہے کسی خاص عہد یا صورتِ حال میں کسی افسانہ نگار کا کوئی ایک افسانہ ہٹ ہوجاتا ہے اور اس کی دھوم مچ جاتی ہے جیسے پاکستان بننے کے وقت منٹو کے افسانے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘، ’ٹھنڈا گوشت‘ اور ’کھو ل دو‘ مشہور ہوئے تھے یا غلام ہندوستان میں انگریز حکومت کے خلاف لکھا جانے والا افسانہ ’نیا قانون‘ مقبول ہوا تھا یا ’کالی شلوار‘ اور’بو‘ جیسے افسانے فحش قرار دیے جانے اور مقدموں کی وجہ سے عوام میں مشہور ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں:سپمورن سنگھ کالرا سے گلزار تک

اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ محض اس لیے مشہور ہوئے تھے لیکن عوام میں ان کی شہرت کا ایک سبب یہ بھی تھا۔ قدرت اللہ شہاب کا یاخدا، خواجہ احمد عباس کا سردار جی، اشفاق احمد کا گڈریا، راجندر سنگھ بیدی کا لاجونتی اور احمد ندیم قاسمی کا پرمیشر سنگھ بھی اسی سلسلے اور موضوعات کے افسانے تھے۔

پھر بعض اوقات ان کی وجہ ان پر بنائی جانے والی فلمیں اور ڈرامے بھی ہو سکتے ہیں۔ جیسے راجندر سنگھ بیدی کے افسانے ’ایک چادر میلی سی‘ کو بھارت میں اسی نام سے اور پاکستان میں’مٹھی بھر چاول‘ کے نام سے فلمایا گیا۔ منٹو کے افسانے پر فلم بدنام، امرتا پریتم کے افسانے پر فلم پنجر اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کرتار سنگھ پر جٹ سیریز کی متعدد فلمیں بنائی گئی تھیں۔

بھارت میں منٹو کا ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ ڈراما کی صورت میں پیش ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے اس سے ان افسانوں کو شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ مقبول عام افسانہ یا اس کا مصنف واقعی بڑا بھی ہو۔ اس کا تعین اہل نقد و نظر، قارئین اور وقت مل کر کرتے ہیں جیسے وفات کے پچاس سال بعد بھی منٹو خاص و عام میں مقبول ہیں۔ ان پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور بہت سا تحقیقی اور تنقیدی کام ہو رہا ہے۔

کیا افسانہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے افسانوں کا تجزیہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہو؟

اپنی تخلیق یا افسانے کے تجزیے اور تشریح کی تو ہر لکھنے والے میں صلاحیت ہوتی ہے اور وہ بتا سکتا ہے کہ اس کے فلاں افسانے کا موضوع اور مواد کہاں سے آیا۔ اس کے محرکات یا پس منظر کیا تھا اور وہ اس کے ذریعے کیا کہنا چاہتا ہے اور اس کی اپنی رائے اس خاص افسانے یا افسانوں کے بارے میں کیا ہے۔ لیکن اپنے افسانوں کا تجزیہ خودکوئی افسانہ نگار کرتا ہے نہ اس کی کچھ زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں:احمد فراز: صحرائے محبت کا مسافر

کمہار تو یہی کہے گا کہ اس کا بنایا ہوا برتن سب سے اچھا اور بے مثال ہے لیکن ایک اچھے افسانہ نگار میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ دوسروں کے افسانوں کا تجزیہ کرسکے۔ یہ صفت شاعروں کے لیے لازمی نہیں ہے کیونکہ بعض شاعر اچھا شعر کہہ سکتے ہیں مگر عموماً سب کا علمی اور تنقیدی مطالعہ زیادہ نہیں ہوتا اور وہ نہیں بتا سکتے کہ انہوں نے اچھا شعر کیسے کہہ لیا مگر اچھے افسانہ نگار عام طور پر کثیر المطالعہ ہوتے ہیں یا ان کو ایسا ہونا چاہیے اور ان میں افسانے کے فن کو پرکھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

کہانی اور فن کیا ہیں اور کہانی میں پلاٹ کی کتنی اہمیت ہوتی ہے؟

کہانی ایسے سچے یا فرضی واقعات کا نثر یا نظم کے ذریعے بیان ہے جن میں انسانی مسرت اور دلچسپی کی کوئی اہم یا نئی بات ہو۔ فن ہنر اور آرٹ کو کہتے ہیں۔ فنون کی کئی قسمیں ہیں۔ مفید یا کمرشل آرٹس اور فنون لطیفہ۔ فنون لطیفہ میں ادب، شاعری، مصوری، رقص، موسیقی، خطاطی اور سنگتراشی وغیرہ شامل ہیں۔

فنون لطیفہ کا تعلق جمالیات سے ہوتا ہے اور یہ لطافت، انبساط اور احساسِ حسن پیدا کرتے ہیں۔ ادب کی کئی شاخیں ہیں جن میں افسانہ، ناول، انشائیہ، رہس، ناٹک، ڈراما، داستان گوئی، قصہ خوانی اور کہانی کاری وغیرہ شامل ہیں۔

جہاں تک پلاٹ کا تعلق ہے۔ ناول، افسانے یا ڈرامے میں واقعات کو جس فنیِ ترتیب اور تنظیم سے پیش کیا جاتا ہے اُسے پلاٹ کہتے ہیں۔کہانی میں پلاٹ کی وہی اہمیت ہے جو مکان بنانے کے لیے قطعہِ زمین یعنی پلاٹ کی ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے زمینی پلاٹ کے بغیر مکان تعمیر نہیں کیا جا سکتا لیکن افسانے کے پلاٹ کے بغیر کہانی لکھی جا سکتی ہے۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ اس میں لکھنے والا کہاں تک ترتیب، توازن اور تاثر پیدا کر سکتا ہے۔

افسانہ اور کہانی میں کیا فرق ہے؟

عام طور پر افسانہ اور کہانی ایک ہی چیز سمجھے جاتے ہیں اور ان میں فرق روا نہیں رکھاجاتا۔ لیکن درحقیقت افسانہ مختصر کہانی یا شارٹ سٹوری کے لیے نہیں فکشن کے وسیع تر مفہوم کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ جس میں ناول، افسانہ، کہانی، داستان، تمثیل بلکہ میرے خیال میں ڈراما بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں:شہرِ نظم اُداس ہے

لیکن ہمارے ہاں عام طور پر سادہ طریقے سے کوئی واقعہ بیان کرنے کو کہانی کا نام دیا جاتا ہے اور جب اسے زیادہ مؤثر بنانے کے لیے فن کی قینچی سے اس کی تراش خراش کردی جاتی ہے۔ اس میں سے کچھ نکال دیا جاتا ہے اور کچھ اپنے پاس سے ڈال دیا جاتا ہے یعنی لکھنے والے کا تخیل، تصور اور نقطہ نظر شامل ہوجاتا ہے اور اسے دلکش اسلوب سے سجا کر جامع صورت دے دی جاتی ہے تو وہی ڈھیلے ڈھالے اور سادہ لباس والی کہانی افسانے کا نیا خوبصورت اور چست لباس پہن کر زیادہ دلکش لگنے لگتی ہے۔

فرض کریں کہیں کوئی قتل کی واردات یا حادثہ ہوگیا ہے۔ اس کی جو سٹوری ایک صحافی اپنے اخبار کو بھیجے گا وہ حقائق پر مبنی ہوگی۔ وہ اس کی رپورٹ سادہ لفظوں میں بغیر کسی تبصرہ اور تجزیے کے بھیج سکتا ہے جسے پڑھ کر قارئین کو ایسا ہی دکھ ہوگا جیسا ہمیں ہر روز اخبار میں ایسی خبریں پڑھ کر ہوتا ہے لیکن کہانی کار اس میں بہت سی اور جزیات بھی شامل کرلے گا، اُسے کوئی جلدی نہیں ہوگی۔

اس لیے ممکن ہے وہ اس حادثے کے اسباب اور متاثرین کے جذبات بھی شامل کرلے۔ وہ ان عوامل کا جائزہ بھی لے جو اس حادثے کا باعث بنے۔ اس کی زبان اور انداز عمدہ مگر عام فہم اور سادہ ہوگا۔ اس کی یہ کوشش بھی ہوگی کہ اس کی یہ کہانی اس خاص حادثے تک محدود نہ رہ جائے اور ہر جگہ اور ہر زمانے میں دلچسپی سے پڑھی جائے۔ اور یقیناً اس کی کہانی پڑھنے والوں کو دیر تک یاد رہ سکتی اور اُداس کرسکتی ہے۔

اب فرض کیجئے وہ اسے افسانے کا روپ دینا چاہتا ہے تو اس کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ کچھ عرصہ اور انتظار کرے تاکہ لوگ اس واقعہ کو بھول جائیں اور افسانے کو اس کے تناظر میں محدود کرکے نہ دیکھیں۔ اب وہ اس کے مواد کو توڑ موڑ کر بالکل ایک نئی صورت دے گا۔ اس کے پیش نظر کوئی خاص نکتہ اور تاثر پیدا کرنا ہوگا جس کے لیے وہ غیر ضروری مواد نکال دے گا اور کچھ زیادہ مؤثر مواد شامل کرلے گا، جس کا ممکن ہے حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو۔

مزید پڑھیں:جب کہانی ’عبداللہ حسین‘ کے گلے پڑ گئی

مثلاً اس حادثے یا واردات سے متاثر ہونے والے کسی کردار کی مشکلات اور باطنی جذبات و کیفیات۔ یا فرض کریں وہ انسانی غفلت کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہے تو اس کی تفصیلات کچھ ایسے مؤثر طریقے سے بیان کرے گا کہ افسانہ پڑھنے والے کے ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو کر رہ جائے گا۔

اسی لیے کہتے ہیں کہ ایک کمزور افسانہ نگار سیکڑوں لوگوں کے ہلاک ہونے کو بیان کرے تو کچھ نہیں ہوتا مگر ایک اچھا افسانہ نگار ایک چیونٹی کی ہلاکت پر اپنے قاری کو رلا سکتا ہے۔ کہانی اور افسانے میں یہی باریک سا فرق ہے۔ ہر افسانے میں کہانی ضرور ہوتی ہے دوسرے لفظوں میں افسانہ کہانی سے ایک قدم آگے کی منزل ہے۔

خیال اور پلاٹ میں کیا فرق ہوتا ہے؟

خیال اور پلاٹ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ خیال کا تعلق فکر، موضوع اور افسانے کی تھیم سے ہے جس کے گرد سارا افسانہ بنا جاتا ہے اور پلاٹ وہ تنظیمی ڈھانچہ ہے جس میں کردار، واقعات اور خیالات ایک خاص ترتیب سے شامل ہوتے ہیں۔

بغیر کہانی کے افسانہ، افسانہ کہلا سکتا ہے؟

ایسے بہت سے تجربات ہو چکے ہیں جن میں کہانی کے بغیر افسانہ لکھنے کی کوشش کی گئی لیکن ایسے افسانے انشائے لطیف یا نثری نظم بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے تجربے کرنے والے تجرید اور بے معنویت کے خلاؤں میں بھٹک کر دوبارہ کہانی کی سر زمین پر لوٹ آئے۔ میرے خیال میں کہانی کے بغیر افسانے کا تصور عبث ہے۔

مزید پڑھیں:8 نومبر: یوم انور مسعود

ہاں البتہ افسانے میں قصے یا کہانی کا تار بہت باریک ہو سکتا ہے مگر یہ اسی طرح ضروری ہے جیسے پھولوں کو ہار کی شکل دینے کے لیے دھاگا یا منکوں کو مالا کی صورت دینے کے لیے ڈوری۔ کہانی کے بغیر افسانے میں کریڈیبلٹی اور قاری کی دلچسپی پیدا نہیں ہوسکتی۔ کہانی دوسروں تک اپنی بات اور پیغام پہنچانے کا ایک وسیلہ اور بہانہ ہے۔ مذہبی کتب ان سے بھری پڑی ہیں۔

اکثر افسانہ نگار، اختتام کو مد نظر رکھ کر لکھتے ہیں کیا یہ بات اور طریقہ درست ہے؟

جی ہاں۔ بالکل درست ہے۔ اگر شاعر قافیہ کو سامنے رکھ کر شعر کہتا ہے یا قافیہ اسے مضمون سجھاتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔ اکثر کیا سبھی اچھے افسانہ نگار افسانے کے اختتام کو سامنے رکھ کر افسانہ لکھتے ہیں اور ایسا ہی کرنا چاہیے۔ لکھنے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ افسانے کے ذریعے کیا کہنا چاہتا ہے اور کس مقام پر اور کیسے افسانے کا اختتام کرے گا۔

افسانے میں اختتام بہت اہم ہوتا ہے بلکہ افسانے کی کامیابی اور ناکامی کا زیادہ تر انحصار اس کے اختتام پر ہوتا ہے۔ تجسس سے افسانہ میں قاری کی دلچسپی قائم رہتی ہے۔ جب یہ دلچسپی اور تجسس اپنی حد کو پہنچ جاتا ہے جسے کلائمکس کہتے ہیں تو وہ افسانہ نگار ایک دو جملوں میں کوئی ایسا انکشاف کرتا ہے جس سے پڑھنے والا چونک جاتا اور متحیر ہوجاتا ہے۔

افسانے کا اختتامیہ ایساہونا چاہیے کہ تشنگی اور عدم تکمیل کا احساس نہ رہے۔ دنیا کے بعض مشہور اور بڑے افسانوں میں یہی طریقہ کار استعمال ہوا، بعض افسانے تو ایسے ہیں کہ آخری جملے میں دھماکا سا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے موپاساں کا ’دی نیکلیس‘ اور منٹو کا ’کھول دو‘ وغیرہ۔

اچھی اور بری کہانی پر اسلوب کہاں تک اثر انداز ہوتا ہے۔ کیا اچھا اسلوب بری کہانی یا افسانے کو اچھا بناتا ہے یا برا اسلوب اچھے افسانے کو برا بناتا ہے؟

اسلوب کہانی لکھنے اور بیان کرنے کے طریقہ کو کہتے ہیں۔ یعنی الفاظ کا انتخاب، علامت تشبیہ اور استعارے کا استعمال اور لب و لہجہ مل کر اسلوب بناتے ہیں۔ اچھا اسلوب اچھی کہانی کو اور اچھا بناتا ہے۔ لیکن بری کہانی کو اچھا نہیں بنا سکتا۔ برے اسلوب سے ایک اچھی کہانی کے تاثر میں کمی واقع ہوجاتی ہے مگر اس کے باوجود وہ کچھ نہ کچھ بچ نکلتی ہے۔

ایک ہی لطیفہ مختلف لوگوں سے سنیں تو ہر ایک کا اپنا اسلوب ہوگا۔ بعض اچھے بھلے لطیفے کو بے لطف بنادیں گے بعض اس میں اور زیادہ تاثر اور لطف پید اکردیں گے۔ اسلوب کی بھی یہی صورت ہے۔ اچھی کہانیاں تو عام آدمی کے مشاہدے، تجربے اور تصور میں بھی ہو سکتی ہیں لیکن وہ انہیں اچھے اور موزوں تر طریقے سے بیان نہیں کرسکتا۔ وہ کہانی سنائے گا تو ممکن ہے ہم پر وہ اثر نہ ہو جو ایک اچھے افسانہ نگار کے سنانے یا لکھنے سے پیدا ہوتا ہے لیکن اس سے اچھی کہانی کی اہمیت تو اپنی جگہ رہے گی۔

مزید پڑھیں:راحت اندوری عہدِ جدید کے حبیب جالب

اچھی کردار نگاری کے لیے افسانہ نگار کا اچھا Observerہونا ضروری ہے؟

جی ہاں۔ افسانہ نگار کو نہ صرف اچھا آبزرور ہونا چاہیے بلکہ اس کا زندگی اور کرداروں کا مطالعہ بھی وسیع ہونا چاہیے۔ اس نے بہت دنیا دیکھی ہو۔ گھاٹ گھاٹ کاپانی پیا ہو۔ ہر طرح کے لوگوں سے ملا ہو ان کے ہر طرح کے رویوں اور نفسیات کو سمجھنے کی اہلیت ہو۔ ایک بار میرے پاس ایک ایسا سائل آیا جس کے بارے میں پتا چلا کہ وہ کئی بار جیل جا چکا اور کئی آدمیوں کو قتل کرچکا ہے لیکن وہ اس قدر ہنس مکھ، حلیم الطبع اور نرم مزاج دکھائی دیتاتھا کہ یقین ہی نہ آتا تھا وہ قتل جیسے بھیانک جرم کا مرتکب بھی ہوسکتا ہے۔

دورانِ گفتگو اس نے بہت لجاجت آمیز لہجہ اختیار کیے رکھا۔ اس کا کیس بہت جائز تھا لیکن میں نے اس کا امتحان لینے کی خاطر اس کی منظوری سے معذرت کردی جس پر وہ اچانک بھڑک اٹھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا، ہاتھ پاؤں کانپنے لگے اور اس پر ایک جنون کی سی کیفیت طاری ہوگئی، اس طرح اس کی اصلیت مجھ پر واضح ہوگئی۔

افسانہ نگار کے فن پر اس کی لاابالی، جذباتی یا اچھی طبیعت کا اثر ہوتا ہے یا نہیں؟

ظاہر ہے اچھی اور بری عادتوں کا اثر ہر شخص کے کردار اور شخصیت پر پڑتا ہے اور اگر وہ شاعر یا افسانہ نگار ہے تواس کے فن پر بھی اس کا ضرور اثر پڑے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کا لاابالی پن زندگی سے ہے یا فن سے؟ بعض فنکار اپنے فن سے بہت مخلص اور سچے ہوتے ہیں اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں لاابالی پن کا رویہ اختیار کیے رکھتے ہیں۔

مثلاً عبدالحمید عدم کے بارے میں سنا ہے کہ ہر وقت شراب کے نشے میں ڈوبے رہتے تھے اور دفتری اور خانگی امور میں لا ابالی پن کا مظاہرہ کرتے تھے مگر شاعر بہت اچھے تھے اور اپنے زمانے میں نوجوانوں کے محبوب ترین شاعر تھے، واہ کیا شاعر تھے:
میکدے سے جو بچ نکلتا ہے
تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے
بوجھ تھا اس قدر گناہوں کا
حاجیوں کا جہاز ڈوب گیا

ناول اور افسانے کے کرداروں میں بنیادی فرق کیا ہوتا ہے؟

ناول کا کینوس زندگی کی طرح وسیع ہوتا ہے اس میں بہت سے کردار ہو سکتے ہیں اور بہت سے کرداروں کا ارتقا دکھایا جاسکتا ہے۔ ان میں حالات اور واقعات کے ساتھ جو تبدیلیاں آتی ہیں وہ بھی بتائی جاسکتی ہیں لیکن افسانے میں کرداروں کا پورا ارتقا نہیں دکھایا جاسکتا۔ عام طور پر ان کی زندگی کا کوئی ایسا خاص اور دلچسپ پہلو ہی پیش کیا جاتا ہے جس میں کوئی معنویت اور مقصد ہو۔

مزید پڑھیں:آفتابِ اَدب ۔ ڈاکٹر وزیر آغا

ناول کے کردار اپنی پوری شخصیت کے ساتھ اور بہت دیر تک ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور ہم ان کو اچھی طرح جاننے اور پہچاننے لگتے ہیں لیکن افسانے کے کرداروں کا صرف وہی ایک پہلو ہماری یادداشت کا حصہ بنتا ہے، جتنا افسانے میں پیش کیا گیا۔

اس کے علاوہ افسانہ نگار اس کوشش میں ہوتا ہے کہ اس کے کردار کسی خاص جگہ، زمانے اور ماحول تک محدود نہ رہیں اور آنے والے عہد میں بھی اپنی طرح کے لوگوں کی نمائندگی کریں اور ویسا ہی ردعمل ظاہر کریں جو انہوں نے کسی خاص سچوایشن یا صورتِحال میں کیا۔ اس لیے ان کی پہچان کا مسئلہ ناول کے کرداروں کی پہچان کے مسئلہ سے الگ ہے۔

منٹو کا گوپی ناتھ، موذیل اور اشفاق احمد کا گڈریا کردار نگاری کے عمدہ نمونے ہے لیکن امراؤ جان ادا کے کردار کی ایک ایک بات سے ہم بہت زیادہ واقف ہیں۔

افسانہ نگار کا نکتہ نظر کیا ہونا چاہیے وہ زندگی کو جیسا دیکھتا ہے یا جیسے دیکھنا چاہتا ہو؟

تمام فنون کا مرکز و محور انسان ہے۔ فنونِ لطیفہ بھی انسانی زندگی میں حسن، خیر اور مسرت کا پیغام لاتے ہیں۔ انسانی زندگی کو بہتر بنانا ہر فنکار کا مقصد اور خواہش ہوتی ہے۔ اسی لیے ادب کو تنقیدِ حیات کہا گیا ہے کہ وہ زندگی کے مثبت رویوں اور اعلیٰ اقدار کے فروغ کے لیے کوشاں ہوتا ہے اور برائیوں، محرومیوں اور انسانی دکھوں کو کم کرنا چاہتا ہے۔

ادیب اگر کسی صورتِحال کی محض عکاسی کرتا ہے اور کوئی حل نہیں بتاتا تو بھی اس کی یہ کوشش اصلاحِ احوال ہی کی ایک صورت ہے۔ مرض کی تشخیص کرنا اور بتانا کہ قوم اور افراد کو کیا کیا بیماریاں لاحق ہیں اور ان کا انجام کیا ہوسکتا ہے، کوئی کم اہم بات نہیں۔

ایک ادیب عام شخص کی نسبت زیادہ حساس، صاحبِ مطالعہ اور صاحبِ رائے ہوتا ہے یا اُسے ہونا چاہیے لیکن اُسے آئیڈیلسٹ کے بجائے حقیقت پسند ہونا چاہیے اور کسی خیالی جنت یا یوٹوپیا کے بجائے اپنے اردگرد کے لوگوں اور سماجی اور سیاسی صورتِحال کو سمجھنا اور اس کا تجزیہ کرنے کا اہل ہونا چاہیے۔ ادیب اور دانشور علامہ اقبال کی طرح خواب دیکھتے ہیں اور محمد علی جناح جیسے قائد ان خوابوں کو عملی صورت دیتے ہیں۔

کیا یہ ضروری ہے کہ افسانے کا آخری حصہ یا اس کا اختتام کسی فکر کی طرف مائل کرے؟

افسانے کو مجموعی طور پر کسی فکر کی طرف مائل کرنا چاہیے۔ چاہے وہ فکر افسانے کی عبارت کے اندر پوشیدہ ہو یا اختتامیہ میں۔ اختتام کا تعلق تاثر اور تکنیک سے ہے لیکن بعض اوقات یہ حاصل کلام بھی ہوتا ہے۔ مگر ضروری نہیں۔ یہ محض تکنیکی ضرورت بھی ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں:قدرت اللہ شہاب کی چندراوتی

افسانہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر لکھے؟

عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر لکھنا بہت اچھی بات ہے لیکن یہ ضروری نہیں۔ کیونکہ ’عصر‘ ایک محدود اصطلاح ہے۔ عصرکے ساتھ ساتھ عصری تقاضے تبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں۔ کل مشرقی اور مغربی پاکستان میں اتحاد عصری تقاضا تھا۔ اب وہ بنگلہ دیش بن گیا ہے۔ اب عصری تقاضے کی نوعیت بدل گئی ہے۔

کل بھارت سے جنگ اور دشمنی عصری تقاضا تھی مگر آج امن اور صلح وقت کا تقاضا ہے۔ کل امریکا طالبان کی سرپرستی کررہا تھا آج انہیں دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے کر ختم کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے تقاضے بھی اس کے مفادات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ایک اور بات یہ ہے کہ بعض اوقات فوری اور ہنگامی نوعیت کے مسائل ادب سے زیادہ صحافت کا موضوع ہوتے ہیں اور ادب کو ان سے بچنا چاہیے، یہ اسے محدود کر دیتے ہیں۔ ادیب کو دائمی اقدار اور انسانی تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر ادب تخلیق کرناچاہیے۔

ہر طرف یہ آواز لگ رہی ہے کہ اچھا ادب تخلیق نہیں ہو رہا پہلے تو یہ بتائیں کہ اچھا ادب کس کو کہتے ہیں اور اس کے کیا تقاضے ہوتے ہیں؟

جس طرح انسانی فکری ارتقا کبھی نہیں رکتا اسی طرح اچھا ادب بھی ہر دور میں تخلیق ہوتا رہتا ہے۔ جب ہم ایسا کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے یا تو ادب پڑھنا چھوڑ دیا ہے اور اس کی رفتار اور معیار سے ناواقف ہیں یا پھر ہم نے نئے ادب کے ذائقے کو پوری طرح قبول نہیں کیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اعلیٰ اور خالص ادب کے قارئین ہر دور میں کم رہے ہیں اور نئی نسل کو تو ادب پڑھنے کی رغبت ہے نہ شوق۔ ان کی تفریح اور تشفی کے اور بہت سے ذرائع موجود ہیں۔ آڈیو اور وڈیو کیسٹوں اور سی ڈیز کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ جس دور کو ادب کا سنہرا دور کہا جاتا ہے اس وقت ایک دو ریڈیو اسٹیشن ہوتے تھے جو دن کو گیارہ بجے شروع ہو کر ڈیڑھ بجے بند ہوجاتے تھے۔

آپ کو شاید یاد ہوگا کہ جس طرح منگل بدھ کو گوشت کا ناغہ ہوتا ہے اسی طرح شروع شروع میں پی ٹی وی کا بھی پیر کو ناغہ ہوتا تھا مگر اب ریڈیو اسٹیشنوں اور ٹی وی چینلوں کا کچھ شمار نہیں، پھر کیبل، ڈش انٹینا اور کمپیوٹر۔کسی زمانے میں تفریح اور وقت گزاری کا اور کوئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا کتاب اور مطالعے کی طرف زیادہ رجحان تھا مگر اب اس کی جگہ دیگر دلچسپیوں نے لے لی ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ آج کل ٹی وی کے پروڈیوسر حضرات ڈرامائی تشکیل کے لیے اُردو کے ناولوں اور افسانوں کی کتابیں کھنگالتے پھرتے ہیں۔

جہاں تک اچھے ادب کا تعلق ہے تو میرے خیال میں وہی ادب اچھا ہے جو انسانی زندگی میں راحت اور خیر لائے۔ مثبت انسانی قدروں کا ترجمان ہو۔ وہ آپ کو اپنا ہم خیال بنا سکے، آپ کو متاثر کرسکے اور آپ کے دکھ درد کوکم کرسکے۔

کیا افسانہ نگار کا کسی سے متاثر ہوکر لکھنا ضروری ہے کیونکہ منٹو فرانس کے موپاساں، راجندرسنگھ بید ی روس کے چیخوف اورغلام عباس بلجئیم کے مارس سیلر سے متاثر ہیں؟

کسی افسانہ نگار کا کسی سینئر افسانہ نگار سے متاثر ہونا کوئی خرابی کی بات نہیں لیکن یہ ضروری بھی نہیں اور عام طور پر ایسا ہوتا بھی نہیں۔ یہ نقادوں اور پڑھنے والوں کے قیافے اور بعض اوقات الزامات ہوتے ہیں۔ ورنہ منٹو پر روسی افسانہ نگاروں کا زیادہ اثر تھا، وہ طبع زاد افسانے لکھنے سے پہلے روسی افسانہ نگاروں کے تراجم کرتے رہے تھے۔

مزید پڑھیں:امر شاہد کے ابّا

یہی حال بیدی کا بھی تھا۔ عام طور پر افسانہ نگار اپنے سارے پیشروؤں کے فن سے واقف ہوتے ہیں اور جیسے دیے سے دیا جلتا ہے وہ مطالعہ کے ذریعے ان سے تکنیک، فنی اسالیب اور افسانہ نگاری کے رموز ضرور سیکھتے ہیں لیکن پھر اپنا ایک منفرد اور مختلف اسلوب اور طرز بیان اختیار کرتے ہیں۔

اُردوادب کا بہترین افسانہ نگار کون ہے؟

مقبولیت کے لحاظ سے تو منٹو کا کوئی ثانی نہیں۔ اس کے علاوہ پریم چند، احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، غلام عباس، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، آغا بابر اور انتظار حسین بہترین افسانہ نگار ہیں۔

قرۃ العین حیدر کومیں بہترین ناول نگار مانتا ہوں۔ ان سے آگے آئیں تو سریندر پرکاش، جوگندرپال، احمد ہمیش، خالدہ حسین، اسد محمد خان، مبین مرزا، آصف فرخی، محمد حمید شاہد۔ نیلوفر اقبال اور اسلم سراج الدین میرے پسندید ہ افسانہ نگار ہیں۔

اردو ادب کا بہترین افسانہ کون سا ہے؟

یہ بہت مشکل سوال ہے۔ پورے اُردو ادب سے صرف ایک افسانے کو سب پر فوقیت دینا ممکن نہیں، اگر آپ اُردو کے کم ازکم دس بہترین افسانوں کے بارے میں پوچھیں تو میں کہوں گا پریم چند کا کفن، منٹو کا ہتک، راجندر سنگھ بیدی کا لا جونتی، عصمت چغتائی کا لحاف، احمد ندیم قاسمی کا پرمیشرسنگھ، غلام عباس کا آنندی، ممتاز مفتی کا آپا، اشفاق احمد کا گڈریا، انتظار حسین کا آخری آدمی اور سریندر پرکاش کا بجوکا اُردو کے بہترین افسانے ہیں۔

اردو کے اہم افسانے ’کتا، جو آدمی تھا‘ کے خالق اسلم سراج الدین نے کہا تھا کہ ’دوستی کے لائق ہونا ایک غیرمعمولی صفت ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص بہت عالم فاضل ہو، دانشور ہو، بے مثال تخلیق کار ہو اور بہت شریف آدمی ہو لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ عین ممکن ہے وہ اچھا دوست ثابت نہ ہو سکے بلکہ اچھا دوست ثابت ہونے کی صلاحیت ہی سے محروم ہو لیکن اگر کسی شخص میں ایسی سب خوبیاں بھی ہوں اور وہ اچھا دوست بھی ثابت ہو سکتا ہو تو سمجھ لیجیے وہ منشا یاد ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp