ایک صدی سے جناح کیپ بنانے والا خاندان

بدھ 11 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جناح کیپ کو پاکستان کی شناخت سمجھا جاتا ہے اور قائداعظم سے وابستگی کی تاریخ نے اسے ایک قومی علامت بنا دیا ہے، بانی پاکستان سے منسوب قراقلی ٹوپی منفرد دستکاری کا شاہکار ہے، جس کی تیاری میں ٹاٹ، کپڑا اور کاغذ کا استعمال کرتے ہوئے استر بنایا جاتا ہے اور پھر خواتین اس کی سلائی کرتی ہیں۔

ملتان میں اصغر علی خان کا خاندان لگ بھگ ایک صدی سے جناح کیپ بنارہا ہے، جسے افغانستان سے درآمد شدہ بھیڑ کی کھال سے تیار کیا جاتا ہے، ان کے ہاتھ کی بنی قراقلی ٹوپیاں کئی اہم شخصیات نے پہنی جن میں کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی مرحوم بھی شامل تھے۔

چوک گھنٹہ گھر، کچہری روڈ، ملتان میں واقع اصغر کیپ ہاؤس پر اب اس خاندان کی تیسری نسل بیٹھی ہے، اس سے قبل اصغر علی کے والد اور ان سے قبل ان کے والد قراقلی ٹوپیاں بنانے کا کام کرتے تھے، وہ آج بھی اپنے خاندانی پیشے کو دل و جان سے جاری رکھے ہوئے ہیں، قراقلی ٹوپی سے ان کی محبت اس کی تاریخی اور قومی اہمیت کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہی وہ ٹوپی ہے جو قائداعظم محمد علی جناح پہنا کرتے تھے۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے اصغر علی کا کہنا تھا کہ ایک زمانہ تھا جب قراقلی ٹوپی کا استعمال عام تھا، زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات جیسے خطیب، مولوی، استاد، نعت خواں اور یہاں تک کہ فوجی بھی اسے پہنا کرتے تھے اور اپنے یونٹس کے لیے انہی کی دکان سے خریداری کرتے تھے۔

اصغر علی نے بتایا کہ ان کے خاندان کو اس پیشے سے وابستہ ہوئے 100 برس سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔ ’ہمیں یہ کام وراثت میں ملا اور ہم اس سے جڑے رہنے پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ اس کی مانگ میں کمی آئی ہے، ستم یہ ہے کہ ہمیں اس کے علاوہ کوئی اور کام بھی نہیں آتا جس سے روزی روٹی کما سکیں۔‘

اصغر علی کے مطابق یہ قراقلی ٹوپی خوبصورتی اور وقار کا نشان ہے۔ ان کے ہاتھ کی بنی ٹوپیاں معروف شخصیات جیسے ذوالفقار علی بھٹو، آصف زرداری، اور کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی نے بھی پہنی ہیں۔ ’لیکن آج، اس کا رجحان کم ہوگیا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ اس قدیم روایت کو اپنائے اور اس کی عزت کرے۔‘

جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کشیدہ ہو جاتے ہیں اور پاک افغان سرحد بند کردی جاتی ہے تو جناح کیپ کے لیے درکار سب سے اہم خام مال یعنی بھیڑ کی اون نایاب ہوجاتی ہے، سرحدی بندش کے باعث اصغر علی مزید ٹوپیاں نہیں بنا پاتے اور ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہوتا ہے۔

قیمت کی بات ہو تو کام اور معیار کے حساب سے ایک قراقلی ٹوپی 700 روپے سے لے کر 10,000 روپے تک کی قمیت میں دستیاب ہے، لیکن موجودہ دور میں اسے پہننے والے معدوم ہوتے جارہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp