کراچی کی سٹی عدالت نے کارساز ٹریفک حادثے کی مرکزی ملزمہ نتاشا دانش کی منشیات کیس میں درخواست ضمانت پر دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
سٹی کورٹ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شرقی شاہد علی میمن نے منشیات کے مقدمے میں ملزمہ نتاشا کی درخواست ضمانت پر سماعت کی، جس کے دوران ملزمہ کے وکیل عامر منصوب ایڈووکیٹ نے دلائل پیش کیے کہ یہ مقدمہ قابل ضمانت ہے، اس مقدمے میں زیادہ سے زیادہ سزا ایک سال ہے یا 5 ہزار روپے جرمانہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کارساز ٹریفک حادثہ: ملزمہ نتاشا کی امتناع منشیات کیس میں ضمانت مسترد
وکیل عامر منصوب نے مزید کہا کہ لگتا یہ ہے کہ ڈی ایس پی لیگل نے قانون ہی نہیں پڑھا، متعلقہ لیگل افسر کو یہ نہیں پتا کہ نارکوٹکس ایکٹ 1997 تبدیل ہوگیا ہے، 2022 میں تبدیل شدہ قانون میں پہلی مرتبہ میٹا فیٹا مائن کا ذکر کیا گیا۔
آئس پینے پر قانون کی کسی دفعہ کا اطلاق نہیں ہوتا، وکیل صفائی
وکیل صفائی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اس قانون کے مطابق ایک کلوگرام سے زیادہ آئس رکھنے پر 14 سال قید ہے، اس قانون کے تحت منشیات بنانے، رکھنے اور دوسری جگہ منتقل کرنے پر 7 سے 14 سال کی سزا لاگو ہوتی ہے، اس قانون کے تحت آئس پینے پر کوئی دفعہ نہیں لگتی۔
ملزمہ نتاشا کے وکیل نے مزید کہا کہ جس دفعہ کے تحت مقدمہ بنایا گیا ہے، اس میں سزا ایک سال قید یا 5 ہزار روپے جرمانہ ہے، 19 اگست کو حادثہ ہوا تو انہوں نے مقدمہ درج ہونے کے بعد ملزمہ کے خون اور پیشاب کے نمونے لیے لیکن یہ نمونے 2 دن کی تاخیر سے 21 کو لیبارٹری بھیجے۔
یہ بھی پڑھیں: کارساز حادثہ کیس: معاہدہ طے ہونے کے بعد ملزمہ نتاشا کی ضمانت منظور
عامر منصوب ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ 24 اگست کو تفتیشی افسر نے عدالت سے دوبارہ خون کے نمونے لینے کی درخواست کی جو عدالت نے مسترد کردی اور کہا کہ پہلے ہی نمونے لیے جاچکے ہیں، 25 اگست کو عدالتی حکم کے باوجود تفتیشی افسر نے جیل میں جاکر ملزمہ کے زبردستی خون کے نمونے لیے۔
ملزمہ نتاشا کے وکیل نے کہا کہ ایک واقعہ کا ایک ہی مقدمہ درج کیا جاتا ہے، پولیس حکام نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منشیات کا الگ مقدمہ بنایا، اس واقعہ کے بعد ایک اینکرپرسن سمیت 12 لوگ ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوچکے ہیں لیکن کسی کو معاوضہ تک نہیں ملا، اس مقدمے کو میڈیا ہائپ کی وجہ سے اہمیت دی جارہی ہے۔
ملزمہ کو ریلیف ملا تو وہ مزید لوگوں کی جان لے سکتی ہے، سرکاری وکیل
سرکاری وکیل خورشید بخاری نے عدالت کو بتایا کہ یہ مقدمہ ابھی تفتیش کے مراحل میں ہے، ابھی اس کا حتمی چالان بھی پیش نہیں ہوا، ملزمہ برطانوی شہری ہے اور اس کے پاس برطانیہ کا ڈرائیونگ لائسنس بھی ہے، اگر اس مرحلے پر ملزمہ کو ضمانت دی گئی تو وہ بیرون ملک فرار ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: کارساز حادثے میں جاں بحق عمران عارف اور آمنہ عارف کے ورثا کو کتنی رقم ملی؟
وکیل خورشید بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ ایک غیرمعمولی کیس ہے جس کے باعث پورے معاشرے میں پریشانی پھیلی ہوئی ہے، ملزمہ نے نشے کی حالت میں ایکسیڈنٹ کرکے ایک نوجوان لڑکی اور اس کے باپ کو مارا ہے، ملزمہ ابھی بھی اپنے حواس میں نہیں ہے، ریلیف ملا تو یہ مزید لوگوں کی جان لے سکتی ہے۔
ہم نے ملزمہ کو جیل میں دیکھا ہے، وہ نارمل ہے، تفتیشی افسر
دوران سماعت عدالت نے تفتیشی افسران سے سوال کیا کہ منشیات کے استعمال کرنے والے لوگوں کو اگر منشیات نہ ملیں تو کیا وہ تڑپتے ہیں اور کیا آپ لوگوں نے جیل میں جاکر ملزمہ کی حالت دیکھی ہے، جس پر تفتییشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے حالت دیکھی ہے، ملزمہ نارمل ہے۔
بعدازاں، عدالت نے وکلا کے دلائل اور تفتیشی افسر کے جواب مکمل ہونے پر ملزمہ نتاشا کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: کارساز حادثہ: نتاشا کا برطانوی لائسنس پاکستان میں ناقابل قبول نکلا
قبل ازیں، عدالت نے 9 ستمبر کو منشیات کیس میں ملزمہ نتاشا کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی۔ عدالت کے تحریری حکم میں کہا گیا تھا کہ سرکاری وکیل کے مطابق کیمیکل ایگزامنر کی رپورٹ کی بنیاد پر امتناع منشیات ایکٹ کا مقدمہ درج کیا گیا، ملزمہ کے وکیل امتناع منشیات ایکٹ کے سیکشن 11 سے متعلق عدالت کو مطمئن نہ کرسکے۔
تحریری حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ امتناع منشیات ایکٹ کا اطلاق صرف شراب نوشی کی حد تک نہیں بلکہ اس کا دیگر اشیا کے استعمال پر بھی اطلاق ہوتا ہے، تاہم وکیل صفائی نے کیمیکل رپورٹ کی شفافیت سے متعلق سوال اٹھائے ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی کے علاقے کارساز روڈ پر 19 اگست 2024 کو ملزمہ نتاشا دانش نے ٹریفک حادثے میں موٹرسائیکل سوار عارف اور ان کی بیٹی آمنہ کو اپنی ایس یو وی کار سے کچل کر ہلاک کردیا تھا۔