اس کہانی کا آغاز دراصل افغانستان پر امریکی حملوں سے قبل ہوا تھا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اور پشاور پریس کلب میں عوامی نیشنل پارٹی کے زیراہتمام ایک مناظرہ منعقد کیا جا رہا تھا۔ اسٹیج پر بزرگ پارٹی رہنما مرحوم اجمل خٹک موجود تھے جنہیں دیکھتے ہوئے ہی میں بڑا ہوا تھا اس لیے ایک طالبعلم کی حیثیت سے ان کو سننے کے لیے پریس کلب کے اس پروگرام میں موجود تھا۔ اسی تقریب میں انہوں نے کہا تھا کہ ’اے قبائل تم کو معلوم نہیں کہ تم پر کتنے بھاری دن آنے والے ہیں، عنقریب تم جان جاؤ گے‘۔
یہ بھی پڑھیں:آپریشن عزم استحکام کے اصل مقاصد اور اہداف کیا ہیں؟
یہ جملہ پھر بہت دیر تک صحافتی زندگی میں میرے ساتھ ساتھ رہا۔ یہ وہ دن تھے جب قبائل ایف سی آر کے تحت سیاسی آزادیوں سے محروم تھے۔ تاہم ان علاقوں کو ’آزاد قبائل‘ کہا جاتا تھا۔ ان کا گزر بسر پہاڑوں، باغات اور پاک افغان سرحدی تجارت پر تھا اور انہیں اجمل خٹک کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا کیونکہ ان کے بقول ان کی زندگی امن کے ساتھ بہترین گزر رہی تھی تو پھر بھاری دن کیسے؟
مگر جلد ہی وہ دن آگئے۔ افغانستان پر امریکی حملوں کے بعد مولانا صوفی محمد تحریک نفاذ شریعت محمدی کے ہزاروں کارکنوں کو جہاد کے لیے مالاکنڈ اور باجوڑ سے لے کر امریکی بی 52 طیاروں سے لڑانے کے لیے باجوڑ کے راستے افغانستان میں داخل ہوئے۔ اس طرح جنوبی وزیرستان سے عبداللہ محسود اور شمالی وزیرستان سے حافظ گل بہادر بھی افغانستان میں لڑنے کے لیے موجود تھے۔ امریکی آمد کے بعد ہزاروں کی تعداد میں جب پوری دنیا کے عسکریت پسند سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہوئے تو وہاں سے ہی جنگ کے شعلوں نے سابقہ فاٹا یعنی قبائلی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
یہ بھی پڑھیں:باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز کا انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن، مطلوب دہشتگرد ہلاک: آئی ایس پی آر
مرحوم اجمل خٹک کی پیشگوئی سچ ثابت ہونے والی تھی لیکن قبائل اب بھی اس سے انجان تھے۔ وہ امریکا کے خلاف لڑنے والوں کو مجاہدین سمجھ کر ان کی خدمت کررہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے مجاہدین کے پاس ڈالرز کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی جن کی وجہ سے انہیں جنوبی اور شمالی وزیرستان میں اچھے معاوضے کے تحت گھر دیے گئے اور شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں رات کی مارکیٹ کھل گئی۔ جہاں غیر ملکی باشندے خصوصی طور پر شاپنگ کرنے لگے۔
رات کی شاپنگ مارکیٹ کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یہ نظروں میں نہ آسکیں۔ یہ وہ دور تھا جب جنرل مشرف اقتدار میں تھے اور انہوں نے پشاور میں منعقدہ ایک تقریب میں اس صورتحال کی نشاندہی کی اور عالمی میڈیا میں چلنے والی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قبائل ان عناصر کو اپنے علاقوں سے نکالیں۔ تاہم وہ یہ سمجھنے میں ناکام نظر آئے کہ ان کے پیشرو آمر جنرل ضیاالحق مرحوم نے ان کو جہاد کی فضیلتیں بیان کی تھیں اس لیے اب راتوں رات وہ قبلہ نہیں بدل سکتے۔ اس کے نتیجے میں فوج قبائلی علاقوں میں داخل ہوگئی۔
قبائلی علاقوں میں آپریشن کیسے شروع ہوئے؟
رپورٹنگ کے لیے مجھے ہفتوں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں رہنا پڑتا تھا یوں ملٹری آپریشنز اور عسکریت پسندوں کے ساتھ امن معاہدوں کو قریب سے دیکھنے کا کافی اتفاق ہوا۔ دراصل قبائلی علاقوں میں انگریز کے دور سے ایک عہدہ پولیٹیکل ایجنٹ کا تھا۔ انگریز تو سنہ 1947 کے بعد چلا گیا تھا لیکن پولیٹیکل ایجنٹ کو ویسے ہی چھوڑ دیا جس طرح آزادی سے قبل تھا۔
یہ بھی پڑھیں:ضلع کرم میں سیکورٹی فورسز کا آپریشن، 7 خوارج ہلاک، 5 زخمی
اس پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس انتظامی اور عدالتی اختیارات دونوں ہوا کرتے تھے۔ موت کی سزا کے علاوہ ہر قسم کی سزا کا اختیار اس کے پاس ہوتا تھا۔ بس یوں سمجھیے کہ بادشاہت تھی۔ پورے کے پورے خاندان کو جیل بھیجنا روزمرہ کا معمول تھا۔ پاک افغان سرحد کی اربوں روپے کی اسمگلنگ ان کے ہی ہاتھ میں ہوتی تھی یہاں تک کہ ان کی پولیس بھی اپنی ہوتی تھی جسے خاصہ دار کہا جاتا تھا۔ یوں سمجھیے یہ ایک بلیک ہول تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار اس وقت کے گورنر علی محمد جان اورکزئی نے ایک قبائلی رہنما کو اس وقت کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری کا قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ وفاق فاٹا سے متعلق کتنی معلومات رکھتا ہے۔ ہوا یوں کہ خورشید قصوری نے ایک دفعہ دورانِ سفر گورنر سے پوچھا کہ کیا جنوبی وزیرستان بھی وانا میں آتا ہے؟ یہ وہی بات ہوگئی کہ کوئی پوچھے کہ کیا پاکستان بھی اسلام آباد میں آتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں:سیکیورٹی فورسز کا مستونگ میں خفیہ آپریشن، 3 دہشتگرد ہلاک، 3 زخمی: آئی ایس پی آر
سول اور ملٹری بیورکریسی کا یہ عالم تھا کہ جب جنوبی وزیرستان میں جنگجو کمانڈر نیک محمد وزیر کے ساتھ فوج اس جنگ کا پہلا شکئی امن معاہدہ اپریل 2004 میں کر رہی تھی تو سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان جنوبی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ تھے اور وہ اس معاہدہ کے سخت خلاف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت کے کور کمانڈر پشاور جنرل صفدرحسین کمانڈر نیک محمد کے ساتھ معاہدہ کررہے تھے تو اعظم خان اس معاہدہ میں موجود نہیں تھے۔ اس کے بعد جون 2004 کو امریکی میزائل حملے میں کمانڈر نیک محمد مارا گیا۔ یہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پہلی میزائل کارروائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:سیکیورٹی فورسز کا ٹانک میں آپریشن، 4 دہشتگرد ہلاک
رپورٹ کے مطابق سنہ 2010 میں سب سے زیادہ ڈرون حملے ہوئے جن کی تعداد 128 تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈرون سے القاعدہ اور طالبان کو زبردست نقصان پہنچا لیکن امریکی ڈرونز میں سینکڑوں بے گناہ بھی مارے گئے۔ دی بیورو آف انویسٹیگیٹیو جرنلزم کی سال 2011 میں مرتب کردہ ایک رپورٹ میں انہوں نے ان ڈرون حملوں میں 160 معصوم بچوں کی ہلاکت کی نشاندہی کی جبکہ ہم خود باجوڑ میں ایک مدرسے، شمالی وزیرستان میں عوامی جرگے اور جنوبی وزیرستان میں ایک جنازے پر ڈرون حملوں کو رپورٹ کرچکے ہیں۔
ان حملوں کو عسکریت پسند پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے اور جنگجوؤں کی بھرتی میں ان ڈرون حملوں کے کردار کے ہم عینی شاہد رہ چکے ہیں۔ امریکا کی انسدادِ دہشتگردی منصوبہ بندی نے ان قبائلی علاقوں کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیل دیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں قبائل مارے گئے اور پھر نتیجتاً ہزاروں کی تعداد میں مزید جنگجوؤں نے جنم لیا۔
قبائلی علاقوں میں کتنے فوجی آپریشن ہوئے، کارآمد کہاں تک رہے؟
ہماری تحقیق کے مطابق گزشتہ 20 سالوں میں اب تک خیبرپختونخوا بشمول قبائلی اضلاع میں 16 آپریشنز ہوئے ہیں اور آپریشن عزمِ استحکام 17واں آپریشن ہے جو شروع کردیا گیا ہے۔ افغانستان میں امریکی اتحادی افواج کی آمد کے بعد القاعدہ اور افغان طالبان نے پاکستان کا رخ کیا اور یہاں روپوش ہوگئے۔ ان کی آمد سابق فاٹا کے راستے ہوئی۔ افغانستان سے فرار کے بعد ان عناصر نے وزیرستان میں پناہ لی۔
اس طرح جنوبی اور شمالی وزیرستان میں طالبانائزیشن کا آغاز ہوا جس کے خلاف وقتاً فوقتاً آپریشنز کیے گئے۔ زیادہ تر آپریشن سنہ 2000 سے سنہ 2014 تک کیے گئے۔ شمالی وزیرستان میں ’آپریشن المیزان‘جو سال 2006 تک چلتا رہا۔ سوات اور شانگلہ میں سنہ 2007 میں ’آپریشن راہ حق’ کیا گیا۔ جنوبی وزیرستان میں سال 2008 میں ’آپریشن زلزلہ‘ کیا گیا۔ باڑہ قبائلی ضلع خیبر میں سال 2008 کو ’آپریشن صراط مستقیم‘ کیا گیا۔ باجوڑ میں سال 2008 میں ’آپریشن شیردل‘ کا آغاز ہوا۔ مالاکنڈ میں سال 2009 میں ’آپریشن بلیک تھنڈراسٹورم‘ کا آغاز ہوا۔ سوات میں ہی سال 2009 میں ’آپریشن راہ راست‘ کا آغاز ہوا۔ جنوبی وزیرستان میں ہی اسی سال ‘آپریشن راہ نجات’ کا آغاز ہوا۔ سنہ 2009 میں پورے ضلع خیبر میں ’خیبر پاس مہم‘ کے نام سے آپریشن کا آغاز ہوا۔ سنہ 2009 میں ضلع کرم اور اورکزئی میں ’آپریشن خوخ بہ دے شم‘ کا آغاز ہوا۔ اس دوران سال 2009 میں ضلع مہمند میں ’آپریشن بریخنا‘ کا آغاز ہوا۔ سال 2011 میں ایک بار پھر ضلع کرم میں آپریشن ’کوہ سفید‘ شروع کیا گیا۔ سنہ 2013 میں ایک بار پھر ضلع خیبر کے علاقے تیراہ میں ’آپریشن راہ شہادت‘ کا آغاز ہوا۔ سنہ 2014 میں شمالی وزیرستان میں ’آپریشن ضرب عضب‘ کے نام سے آپریشن کیا گیا۔ سال 2014 میں ہی ضلع خیبر میں ’آپریشن خیبر‘ کیا گیا۔ سال 2017 میں پورے پاکستان میں آپریشن ’ردالفساد‘ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:http://وزیراعظم شہباز شریف کا پاک فوج کی آپریشنل تیاریوں پر اطمینان کا اظہار
یہ تمام آپریشنز القاعدہ، پاکستانی طالبان اور دیگر انتہاپسند تنظیموں کے خلاف کیے گئے۔ انتہا پسندی، دہشتگردی اور ان آپریشنز کے نتیجہ میں سنہ 2013 میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے کچھ محسود نوجوانوں نے اپنے حقوق کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان میں ’
محسود تحفظ موومنٹ‘ کی بنیاد رکھی۔
ان آپریشنز کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد قبائل دربدر ہوئے اور ان علاقوں سے نکل کر خیبر تا کراچی پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
تحریک طالبان پاکستان کا قیام اور قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی
کمانڈر نیک محمد وزیر اور کمانڈر عبداللہ محسود کے خاتمے کے بعد جنوبی وزیرستان میں بیت اللہ محسود نے سر اٹھایا اور پورے قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) میں جاری جنگ کے لیے سنہ 2007 میں تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک متحدہ پلیٹ فارم بنایا۔ اس طرح اس تنظیم نے سابق فاٹا سے باہر پورے پاکستان کو میدانِ جنگ بنا دیا۔ عمل اور ردعمل کے نتیجہ میں مسلح جنگجوؤں کی تعداد بڑھنے لگی۔
شمالی وزیرستان کے علاقے ڈانڈے درپہ خیل میں جب بھی حافظ گل بہادر کے گروپ کے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہر بار ایک نوجوان کا بحیثیت متوقع خودکش تعارف کروایا جاتا۔ اس علاقے میں موسکی نامی گاؤں کو ’چھوٹا ازبکستان‘ کہا جاتا تھا۔ ایک گاڑی سے جب بھی سامنا ہوتا تھا خوف کی ایک لہر کمر سے گزرتی محسوس ہوتی تھی۔ کالے شیشوں والی سفید گاڑی جب بھی تیزی سے نکلتی تو سڑک پر چلتا ہر شخص بے اختیار کہہ اٹھتا ’خدا خیر کرے‘ اس کو کچھ لوگوں نے عزرائیل کا نام دے رکھا تھا۔ اس دوران ’کالی رات‘ کے نام سے گروپ بھی متحرک ہوچکا تھا۔ یہ لوگ جب بھی اس گاڑی میں نکلتے اگلی صبح ہمیں کہیں نہ کہیں ایک سربریدہ لاش ملتی جس پر ایک چٹ پڑی ہوتی تھی اور جس پر لکھا ہوتا ’ہر جاسوس کا انجام یہی ہوگا‘۔
یہ بھی پڑھیں:وادی تیرہ میں پاک فوج کا آپریشن، جہنم واصل ہونے والے خوارج کی تصاویر منظر عام پر
پھر ٹی ٹی پی کی ٹارگٹ کلنگ کراچی پہنچی۔ کراچی میں ٹی ٹی پی سوات، مومند، وزیرستان اور دیگر علاقوں کے الگ الگ گروہ متحرک تھے جس کے خلاف کراچی پولیس وقتاً فوقتاً کارروائیاں کرتی رہتی۔ ایسی ہی ایک کارروائی میں جنوبی وزیرستان سے نکل کر نقل مکانی کرنے والے نقیب اللہ محسود مارے گئے۔ 13 جنوری 2018 کو لگ بھگ 18 برس جاری رہنے والی اس جنگ نے ایک نیا موڑ اختیار کرلیا۔ معلوم ہوا کہ نقیب اللہ محسود نامی یہ نوجوان بے گناہ تھے۔ اسی موقع پر محسود قبیلے کے نوجوان منظور محسود المعروف منظور پشتین اپنی تنظیم ’محسود تحفظ موومنٹ‘ کو لے کرمنظرِ عام پر آئے اور اپنے علاقے میں جاری جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ناانصافیوں کے خاتمے کے لیے ’محسود تحفظ موومنٹ‘ کے نام سے اب بڑے پیمانے پر احتجاجی تحریک شروع کی۔ اس تحریک کا سب سے بڑا اجتماع کراچی میں ہی ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے اسلام آباد پریس کلب کے باہر ڈیرے جمائے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کا قیام کیسے عمل میں آیا؟
جب فروری 2018 میں منظور پشتین شمالی اور جنوبی وزیرستان کے قبائل کو لے کر اسلام آباد پریس کلب کے باہر موجود تھے تو اسی وقت ہم دیکھ رہے تھے کہ یہ کہانی یہاں رکنے والی نہیں ہے۔ پھر جلد ہی پورے خیبرپختونخوا کے جنگ زدہ علاقوں اور بلوچستان کے پشتون اسلام آباد پہنچے اور یوں یہ تنظیم صرف محسود قبائل تک محدود رہنے کے بجائے پوری پشتون بیلٹ یہاں تک کہ افغانستان تک پھیل گئی اور اس کا نام ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ (پی ٹی ایم) رکھا گیا۔
اس تحریک کے ابتدائی دنوں میں شامل ہونے والوں میں سینیٹر افراسیاب خٹک کا نام بھی شامل ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جنگ کی تباہ کاریاں اور زخم ہی سے پختون تحفظ موومنٹ کا جنم ہوا۔
افراسیاب خٹک نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ محسود تحفظ موومنٹ تو نوجوانوں کی ایک محدود تحریک تھی لیکن جب یہ اسلام آباد پہنچی تو وہ پشتون جو کسی نہ کسی شکل میں جنگ سے متاثر ہوئے تھے وہ خود جوق در جوق اسلام آباد پہنچے اور ازخود اس تحریک سے جڑنے لگے۔
اس تنظیم نے اسٹیبلشمنٹ مخالف مؤقف سختی سے سامنے رکھا۔ اس وقت کچھ سازشی تھیوری یہ بھی آئی کہ اس تنظیم کو اسٹیبلشمنٹ پشتون قوم پرست جماعتوں کے توڑ کے طور پر سامنے لائی ہے۔ تاہم منظور پشتین نے واضح طور پر کہا کہ وہ پارلیمانی سیاست کی طرف کبھی نہیں جائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ اس تنظیم کے انتہائی فعال رہنما محسن داوڑ نے احتجاج کو پارلیمان میں لے جانے کے لیے اپنی سیاسی جماعت ’نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ‘ کی بنیاد رکھی اور رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:سیکیورٹی فورسز کا وادی تیراہ میں آپریشن، فتنہ خوارج کے سرغنہ سمیت 25 دہشتگرد ہلاک
اسی دوران پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک اور رہنما علی وزیر نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور جیت کر محسن داوڑ کے ساتھ ہی قومی اسمبلی پہنچے۔ تاہم اپنے سخت مؤقف کے باعث رکن قومی اسمبلی ہونے کے باوجود زیادہ تر پابند سلاسل ہی رہے۔ اس موومنٹ کے زیادہ تر اثرات جنوبی اضلاع میں ہی رہے اور ایسا ہونا بھی تھا کیونکہ یہ وہ علاقے تھے جو جنگ سے زیادہ متاثرہ رہے۔
افغانستان اور پی ٹی ایم کا تعلق کیا ہے؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں افغانستان کے پشتون منظور پشتین کو مانتے ہیں لیکن پھر اگست 2021 میں جب طالبان افغانستان میں آئے تو اس تنظیم کی افغانستان سے اخلاقی حمایت لگ بھگ ختم ہوگئی لیکن اس دوران ایک اور واقعہ ہوا جس کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ سابقہ فاٹا سے نکل کر پختونخوا کے دیگر اضلاع میں پھیل گئی۔
جب سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی جنگجوؤں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کردیا تو جذبہ خیرسگالی کے طور پر کئی جنگجو رہا کردیے گئے اور جب کئی جنگجو سوات پہنچ کر پھر سے مورچہ سنبھالنے لگے تو اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
اس موقعے پر پی ٹی ایم رہنما سوات پہنچے اور اہلِ سوات نے ان کو بھرپور طریقے سے خوش آمدید کہا۔ ایسا اس لیے بھی ہوا کہ اہل سوات نے جس طرح اپنی جانوں کا نذرانہ دیا اور سیکیورٹی فورسز نے جس کامیاب طریقے سے سوات میں آپریشن کیا اس کے بعد ان عناصر کی واپسی کو ریاست کی جانب سے ایک منفی پیغام کے طور پر لیا گیا۔
واضح رہے کہ حکومتی عہدیدار نجی محفلوں میں کہتے تھے کہ ان مسلح افراد کو سابق فاٹا کے علاقوں تک محدود رکھا جائے گا۔ ایسے میں پی ٹی ایم کی مقبولیت باعث حیرت نہیں لگتی۔ جس طریقے سے ان مسلح جنگجوؤں کی آمد کے بعد خصوصاً جنوبی اضلاع صوبائی کنٹرول سے نکلے جا رہے ہیں اس کے بعد پی ٹی ایم کی آواز مزید توانا ہورہی ہے۔
اسی دوران تحریک کے ایک کارکن گیلہ من وزیر اسلام آباد میں ایک تنازعے کے دوران مارے گئے۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی اکثریت نے اسلام آباد میں ایک پشتون نوجوان کے قتل پر سوال اٹھاتے ہوئے اس قتل کو متنازغہ کردیا حالانکہ اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر بھی درج ہوئی اور تنظیم کو معلوم تھا کہ مقامی شخص نے اس قتل کو سرانجام دیا۔ بہرحال ایک جلوس کی شکل میں گیلہ من وزیر کے جسد خاکی کو وزیرستان لے جایا گیا جہاں منظور پشتین سمیت کئی پشتون قوم پرست رہنماؤں نے تقریریں کیں۔ یہی وہ موقع تھا جب پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے 11 اکتوبر کو پشتون جرگہ بلاکر قومی عدالت لگانے کا اعلان کیا تھا۔
پشتون تحفظ موومنٹ اکتوبر میں کیا کرنے جا رہی ہے؟
سینیٹر افراسیاب خٹک کو بھی اس جرگے میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ 11 اکتوبر ہی کی تاریخ کیوں مقرر کی گئی اور وہ اس عمل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’اس کا تاریخی حوالہ تو نظر نہیں آتا لیکن شاید تیاریوں کے لیے ان کو اس حد تک مدت درکار تھی مگر یہ ایک اچھا عمل ہے۔ ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا۔ میں نے کئی ایسے جرگوں کی تشکیل کی ہے جس میں پشتون رہنماؤں کو بلا کر پشتون مسائل پر بات کی گئی۔ حال ہی میں محمود خان اچکزئی نے بھی ایک قومی جرگہ بلایا تھا۔ بہرحال ہمیں 3 روزہ قومی جرگے کا کہا گیا ہے۔ اس میں مشران ہوں گے اور غالباً ان لوگوں کو بھی دعوت دی جائے گی جو براہ راست اس جنگ سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کو سنا جائے گا۔ میں اس طرح کی کوششوں کو سراہتا ہوں کیونکہ بات چیت سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ میں پاکستان میں Truth and Reconciliation Commission کی ہمیشہ وکالت کرتا رہا ہوں‘۔
یہ بھی پڑھیں:بلوچستان، سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 21 دہشتگرد ہلاک، 14 جوان شہید
منظور پشتین اس کو جرگہ اور عدالت دونوں ناموں سے یاد کیوں کرتے ہیں؟
غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے بتایا کہ جرگے میں تمام پشتون اقوام کو کہا جائے گا کہ وہ اپنے اپنے نمائندوں کے نام دیں۔ جب یہ نام آجائیں گے تو وہ قوم کی نمائندگی کریں گے اور ان سے یہ قرآن مجید پر حلف اٹھوایا جائے گا کہ ان کے ساتھ چاہے کچھ بھی ہو وہ نہ جھکیں گے اور نہ بکیں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پھر یہ جرگہ پشتون قوم کے مسائل پر بحث کرے گا اور فیصلے کرے گا۔ ہمیشہ اجلاس کے اعلامیے جاری ہوتے ہیں لیکن اس میں فیصلے ہوں گے۔
11 اکتوبر کے حوالے سے پی ٹی ایم ذرائع نے بتایا کہ اس میں پشتون مسائل کے ساتھ ساتھ پشتون وسائل پر بھی بات ہوگی۔ اس حوالے سے متعدد جماعتوں کے رہنماؤں سے منظور پشتین نے ملاقات کی ہے اور اس جرگے میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔
یہ بات تو یقینی ہے کہ 11 اکتوبر کو جنگ سے متاثرہ علاقوں میں پشتونوں کو درپیش مسائل پر بات ہوگی، اسٹیبلشمنٹ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جآئے گا، بحث مباحثہ ہوں گے لیکن فیصلے کیا ہوں گے؟ اس حوالہ سے جب منظور پشتین سے پوچھا گیا تو انہوں نے پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ تو جرگے کے مشران طے کریں گے۔ بہرحال یہ سب کس طرح ہوگا اور جو فیصلے یہ کریں گے اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار کیا ہوگا اس حوالے سے ابہام موجود ہے۔
جس وقت اس تحریر کے لیے منظور پشتین سے رابطہ کیا جارہا تھا وہ مالاکنڈ ڈویژن کے دُور دراز علاقوں میں پشتون جرگے کی مہم میں مصروف ہونے کے باعث رابطے میں نہیں آئے اور اس وقت جنوبی ضلع لکی مروت میں پولیس ٹارگٹ کلنگ کے خلاف سراپا احتجاج تھی۔ دوسری جانب باجوڑ میں پولیو ورکرز کی حفاظت پر مامور پولیس کانسٹیبل کے قتل کے بعد قبائلی ضلع باجوڑ کی پولیس نے بھی پولیو ڈیوٹی کی حفاظت کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کچے کے ڈاکوؤں کیخلاف مشترکہ آپریشن کی تجویز ، سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر
افغانستان میں طالبان کی امن اور سابق عمران خان حکومت کی جانب سے پاکستانی طالبان کے حوالے سے اختیار کردہ پالیسی کے بعد سابق قبائلی علاقوں میں بدامنی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے میں 11 اکتوبر اور پشتون تحفظ موومنٹ کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ مرحوم اجمل خٹک کی بات کہ بھاری دن آنے والے ہیں ایک بار پھر میرے ساتھ چلنے لگی ہے۔