گھر میں ایک اور شکست، پاکستانی ٹیم ہمیں کب حیران کرے گی؟

جمعرات 23 اکتوبر 2025
author image

فہیم پٹیل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ 6 سالوں کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم نے گھر میں 16 ٹیسٹ میچ کھیلے، جن میں سے 4 جیتے اور 4 کا کوئی نتیجہ نہ نکلا جبکہ 8 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ مزید تکلیف دہ بات یہ رہی کہ اس دوران 2 سیریز میں کلین سوئپ کی خفت اٹھانی پڑی جبکہ مزید دردناک معاملہ یہ رہا کہ بنگلہ دیش نے تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دی۔

یہ ہے وہ کارکردگی جسے ہم اپنے سر پر سجائے گھوم رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ہوم سیریز ٹیمیوں کے لیے سودمند رہتی ہیں کہ وکٹیں اور کنڈیشنز دونوں ہی حق میں ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر ٹیم کا ریکارڈ گھر میں اچھا رہتا ہے، مگر ہمیں ناجانے کیا ہوگیا ہے کہ اب گھر میں بھی جیتنا جیسے بھول گئے ہیں۔

واضح رہے کہ 16 ٹیسٹ میچوں میں بھی 4 میچوں میں کامیابی اسپن وکٹوں کے نئے فارمولے کے سبب ملی ہے ورنہ 2022 میں پہلے انگلینڈ نے ہمیں گھر میں گھس کر 0-3 سے شکست دے کر رسوا کیا اور پھر 2024 میں بنگلہ دیش نے 0-2 سے شرمندہ کیا۔

جب عاقب جاوید نے اسپن وکٹوں کا نیا فارمولہ پیش کیا اور پھر اس فارمولے پر نعمان علی اور ساجد خان نے شاندار انداز میں عمل کیا تو لگا کہ بس اب تو ہمیں گھر میں ہرانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے مگر ہم غلط تھے کیونکہ اس فارمولے کے بعد ہم صرف انگلینڈ کو ہی سیریز میں شکست دے سکے ہیں جبکہ ویسٹ انڈیز جیسی کمزور اور جنوبی افریقہ کی کم تجربہ ٹیم کے ہاتھوں بھی سیریز برابر ہی کرسکے اور کامیابی کا سنہری موقع ہم نے اپنے ہاتھ سے نکال دیا۔

جنوبی افریقہ کے خلاف اس شکست کا ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں ہم اچانک دوسرے سے چوتھے نمبر پر آگئے، لیکن اگر جیت جاتے تو ہماری پوزیشن کافی مستحکم ہوجاتی۔

چونکہ بار بار ہارنے کے بعد اب یہ بحث تو ختم ہی ہوگئی ہے کہ ہم کیوں ہارے، مگر ہاں یہ گنجائش اب بھی باقی ہے کہ اس موضوع پر بات کرلیں کہ ہارنے کا ذمہ دار کون ہے، کچھ لوگ شکست کا ملبہ بلے بازوں پر ڈال رہے ہیں تو کچھ کے نزدیک غلطی بولرز کی ہے، چلیں اچھا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے کہ ہمارے پاس کرنے کے لیے کوئی کام تو ہونا چاہیے۔

لیکن میرے نزدیک ہر بار غلطی صرف ان دونوں کی نہیں ہوتی، بعض اوقات نظام کی خرابی بھی شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔

جب بھی ہوم کنڈیشنز کی بات کی جاتی ہے تو اس کا فائدہ اسی وقت اٹھایا جاسکتا ہے جب کسی بھی ٹیم کو معلوم ہو کہ اس کا مضبوط شعبہ کونسا ہے؟ یعنی بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ بنانی چاہیے یا بولنگ کے لیے؟ اسپن وکٹ ہو یا باؤنسی؟ ہاں کچھ میچوں کے لیے آپ میچ میں 3 یا 4 اسپنرز کھلا سکتے ہیں اور میچ جیت بھی سکتے ہیں مگر ہر بار اور بار بار یہ فارمولہ چلانا نہ ہی ٹھیک ہے اور نہ ہی یہ ہر بار کام کرسکتا ہے۔

وکٹیں بناتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ جن وکٹوں پر ہم مخالف ٹیم کو پکڑنا چاہ رہے ہیں کیا ہمارے بیٹسمین انہی وکٹوں پر کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ویسٹ انڈیز کی کمزور ٹیم نے جنوری میں پاکستان کا دورہ کیا اور اس کے خلاف ہمارے بلے بازوں کا حال یہ رہا کہ 4 اننگز میں صرف ایک بار 200 سے زیادہ رنز بنائے، مگر اس کارکردگی کے باوجود ہم نے ایک میچ جیت لیا۔

ابھی جنوبی افریقہ کے خلاف صورتحال اگرچہ نسبتاً بہتر رہی مگر پھر بھی 4 میں سے 2 اننگز میں ہم 200 سے کم رنز پر آؤٹ ہوگئے، اب اس موقع پر کیا یہ نہیں کہنا چاہیے کہ دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے پر ہم خود ہی بار بار اس میں گر رہے ہیں؟

ماہرین اس بار پر متفق ہیں کہ راولپنڈی ٹیسٹ میں پاکستان کو پہلی اننگز میں 500 رنز کرنے چاہیے تھے اور کیے جاسکتے تھے، لیکن ہم اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور یہی وہ غلطی رہی جس کا جنوبی افریقہ نے فائدہ اٹھالیا۔

چلیں ہمارے لیے 333 بھی کافی ہوسکتے تھے اگر ہم جنوبی افریقہ کو آخری 2 وکٹوں پر 169 رنز بنانے کی اجازت نہ دیتے، یہ کام بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ابتدائی 8 وکٹیں 235 رنز گرادیں اور ٹیل اینڈز 169 رنز بناکر آپ سے میچ ہی چھین لیں؟

یعنی ہمارے بلے باز بھی ناکام رہے، بولرز بھی اور کپتان بھی، یعنی کسی نے مایوس نہیں کیا اور سب نے بالکل ویسا ہی کھیلا جیسا ہم کئی عرصے سے انہیں دیکھتے آرہے ہیں۔

جب میچ کی پہلی اننگز میں آصف آفریدی نے مشکل وقت میں 6 وکٹیں لیں تو خیال آیا کہ میچ میں ہر بار قصور صرف بلے بازوں یا بولرز کا نہیں ہوتا، نظام کی خرابیاں بھی شکست کا بڑا سبب بن سکتی ہے۔

یہ کیسا نظام ہے کہ کسی بولر کو آپ 39 سال تک موقع نہیں دیں؟ پھر ایک اور تلخ بات بھی دیکھیے کہ 39 سال میں کسی بولر کو موقع دیکر ایک اور نوجوان بولر کے کیریئر کو آپ تاخیر کا شکار کررہے ہیں، میں یہاں ہرگز آصف آفریدی کو کھلانے کی مخالفت نہیں کررہا بلکہ بات صرف یہ ہے کہ کھلاڑی کو وقت پر موقع دینے کا میکینزم ہم کب بنائیں گے؟ ہم لانگ ٹرم پالیسی کب بنائیں گے؟ کب سوچیں گے کہ ہمیں ایسے کھلاڑی تیار کرنے ہیں جو اگلے 2، 4 سالوں میں اس قدر پالش ہوجائیں کہ ٹیم کی فتوحات میں ان کا کردار اہم ہوجائے۔

ہماری ٹیم میں نہ مستقل کوچ ہے، نہ مستقل کپتان ہوتا ہے، بولرز 39 برس کی عمر میں ڈیبیو کرتے ہیں اور بلے بازوں کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر 2 میچوں میں پرفارم نہ کیا تو ٹیم سے باہر ہوجائیں گے، جب حالات یہ ہوں اور ہر چیز غیر یقینی کی شکار ہو تو ان حالات میں حیران کن نتائج کی توقع کرنا دراصل ہماری اپنی ہی غلطی ہے اور اس ہر ہم پوری ٹیم سے معذرت خواہ ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

بشریٰ بی بی فیض حمید کے لیے کام کررہی تھی تو اس میں شاہزیب خانزادہ کا کیا قصور؟ خواجہ آصف برس پڑے

سری لنکا کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش کرنے کا کریڈٹ کسے جاتا ہے؟ شاہین آفریدی نے بتا دیا

پاکستان کرکٹ کا مستقبل روشن ہے، محسن نقوی کی شاندار کامیابیوں پر قومی ٹیم اور پاکستان شاہینز کو مبارکباد

میکسیکو میں جنریشن زی کا بڑے پیمانے پر احتجاج، کرپشن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

سید عاصم منیر سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ فیلڈ مارشل کی نئی تقرری پر مریم نواز کا تبصرہ

ویڈیو

انتخابات میں شکست: لالو پرساد یادو کی بیٹی نے سیاست اور خاندان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا

غلام علی: بلتستان کی مٹتی دھنوں کا آخری محافظ

2025 ویڈنگ سیزن: 70 کی دہائی کا ونٹیج گلیمر دوبارہ زندہ ہوگیا

کالم / تجزیہ

سارے بچے من کے اچھے

کامنی کوشل، اس دل میں لاہور کی یادوں کا باغ تھا

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں