بھارتی لوک سبھا میں کشمیری رکن پارلیمنٹ انجنیئر رشید بھارت کی تہاڑ جیل سے 11 ستمبر کو ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ یہ رہائی عارضی ہے اور صرف 2 اکتوبر تک ہے کیونکہ 21 دن کے بعد وہ دوبارہ تہاڑ جیل میں ہوں گے۔ ان کو صرف مقامی اسمبلی کے انتخابات میں مہم کے لیے رہائی ملی ہے۔
بھارتی لوک سبھا کے ممبر انجنیئر رشید 12ستمبر کو سرینگر پہنچے تو اپنی دھرتی ماں سے لپٹ گئے، ادب سے نیچے جھکے اور زمین کو بوسا دیا اور کہا ’یہ میرا وطن ہے‘۔ اس کے بعد سرینگر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ عزت نفس اور عزت کے ساتھ امن چاہتے ہیں، وہ قبرستان کا امن نہیں چاہتے‘۔
انجنیئر رشید نے کہا کہ جب وہ اگست 2019 کو جیل گئے تو ان کی ایک ریاست تھی، اب رہائی پر دیکھتا ہوں کہ یہاں تو کوئی ریاست ہے ہی نہیں، اور نہ ہی آرٹیکل 370 ہے یا آرٹیکل 35 اے ہے،بس صرف ایک چارج شیٹ ہے۔
خیال رہے 21 نومبر 2018 کو انڈیا کے گورنر نے جموں کشمیر کی اسمبلی تحلیل کی اور گورنر راج نافذ کیا، پھر مئی 2019 میں صدارتی راج نافذ ہوا، لیکن 5 اگست 2019 کو انڈیا نے جموں کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم کیا جس کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔
مزید پڑھیں: کشمیری عوام آج یوم سیاہ کیوں منارہے ہیں؟
اس کے علاوہ آرٹیکل 35 اے ختم کرکے غیر کشمیریوں کو کشمیر میں زمین خریدنے کی اجات دی اور جموں کشمیر کو 2 یونین ٹریٹریز میں تقسیم کیا۔ انڈیا کی 9 لاکھ فوج نے جموں کشمیر کا محاصرہ کرکے کوئی ڈیڑھ کروڑ آبادی کو اپنے ہی گھروں میں قید کردیا، انٹرنیٹ اور فون بند کردیا گیا۔
کسی مزاحمت سے بچنے کے لیے اس دوران 5 اگست سے پہلے اور اس کے بعد ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں بہت سارے سیاست دان شامل تھے، ان ہی میں انجینیئر رشید بھی تھے۔ کئی اور کشمیری رہنماؤں کے طرح انجینئر رشید کو بھی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کیا گیا۔
بھارت نے 2019 میں کشمیر کی خصوصی حثییت ختم کیے جانے کے صرف 3دن پہلے انجنیئر رشید کو گرفتار کیا، ان کوغیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ اور الزام عائد کیا کہ انہوں نے دہشتگردوں کے لیے فنڈنگ کی ہے، جو کہ انڈیا ابھی تک ثابت نہیں کرسکا۔
اس سال اپریل میں انڈیا کے پارلیمان کے الیکشن شروع ہوئے جو جون تک جاری رہے، انجینئر رشید نے کشمیر میں نریندر مودی کی پالیسیز اور اقدامات کے خلاف اپنی مزاحمت کے اظہار کے لیے تہاڑ جیل سے الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔
یہ پڑھیں: مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی پہلی قرارداد کے 76 سال، کچھ بھی تو نہ بدلا
یہ الیکشن کوئی 9لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں لڑا گیا، بہت سارے لوگ انجینئر رشید کی جیت کو مودی کے اقدامات کے خلاف ریفرنڈم سمجھتے ہیں۔
تاہم، وادی کشمیر میں پہنچتے ہی 12 ستمبر کو انجنیئر رشید نے بارہ مولہ کے نواح میں واقع دیلینا میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لکھن پور سے گلگت بلتستان تک، کشمیر ہمارا ہے۔ میں بھارت کا دشمن نہیں ہوں اور نہ ہی پاکستان کا ایجنٹ ہوں، میں اپنی ضمیر کا ایجنٹ ہوں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2019 کو جو کیا، وہ غیر جمہوری اور غیر آئینی تھا۔
’ان کی جدوجہد صرف آرٹیکل 370 تک محدود نہیں ہے بلکہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے بارے میں ہے۔ تہاڑ جیل سے انتخابات جیتنے کی بعد ان کو 4ماہ سے پارلیمنٹ میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے‘۔
سری نگر میں بعض سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ رشید کی سیاسی مضبوطی کشمیر کی روایتی سیاسی جماعتوں کے ووٹ کو تقسیم کرسکتی ہے اور ان کو کم ووٹ پڑ سکتے ہیں۔ اس طرح وادی کشمیر میں ووٹ متعدد پارٹیوں میں بٹ جائیں گے اور وادی کشمیر میں کوئی ایک جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوسکتی ہے۔
سیاسی مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر انجنیئر رشید روایتی سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بی جے پی نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے جو ان کی خواہش بھی ہے۔ ساتھ ہی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ انجنیئر رشید نے لوک سبھا انتخابات میں شمالی کشمیر کو متحرک کیا اور ایک بڑی کامیابی حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں: مہاجرین جموں و کشمیر نے بھارتی تسلط کیخلاف اقوام متحدہ کو یادداشت پیش کردی
لیکن ان کا خیال ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اسمبلی انتخابات میں ویسی ہی کارکردگی دکھا سکیں گے۔ ہر حلقے کی اپنی ڈائنامکس ہوتی ہیں اور عام طور پر لوگ جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں۔
لیکن انجینئر رشید نے دیلیناہ میں اپنے پہلے خطاب میں یہ پیشکش کرچکے ہیں کہ اگر کانگرس کی سربراہی میں قائم اتحاد انڈین بلاک یہ یقین دہانی کرائیں کہ وہ اگلا پارلیمنٹ کا انتخاب جیتنے کی صورت میں آرٹیکل 370 کی بحالی کے لیے پارلیمنٹ میں قراداد منظور کریں گے تو ایسی صورت میں وہ ان کی حمایت کریں گے۔
یاد رہے انڈین بلاک میں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی شامل ہیں۔
واضح رہے انجنیئررشید کی سیاسی زندگی اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے سنہ 1978 میں مقتول عبدالغنی لون کی قیادت میں پیپلز کانفرنس میں شرکت کی تھی، اس وقت ان کی عمر 13 سال تھی۔ رشید نے 2008 میں کپواڑہ ضلع کے لنگیٹ حلقے سے اسمبلی کی سیٹ جیتی، 2014 میں وہ دوبارہ اسمبلی کے رکن بنے۔