کئی دنوں سے زیر بحث آئینی ترمیمی بل کا مسودہ وی نیوز نے حاصل کرلیا جس میں مجموعی طور پر 43 تجاویز شامل کی گئی ہیں جن میں ججوں کے حوالے سے انتہائی اہم تجاویز اور آرمی ایکٹ کا آئینی تحفظ بھی شامل ہے۔
وی نیوز کے پاس موجود مسودے کے مطابق مجوزہ آئینی ترمیمی بل میں آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز ہے۔ نئی ترمیم کے مطابق 63 اے کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ دینے والا اسمبلی رکنیت تو کھو دے گا مگر اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا۔
ترمیمی بل میں آئین کے آرٹیکل 17 میں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کی جگہ وفاقی آئینی عدالت شامل کرنے سے متعلق ترمیم کی تجویز شامل ہے۔
مزید پڑھیں: آئینی ترمیم کے لیے مولانا فضل الرحمان کی حمایت نہیں ملی، خواجہ آصف
آئین کے آرٹیکل 175 اے کے تحت ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں بھی ترمیم کرنے کی تجویز شامل کی گئی ہے۔
وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی وزیراعظم کو سفارش کرے گی۔
دستاویز کے مطابق قومی اسمبلی کی کمیٹی 3 سینیئر ترین ججوں میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی تاہم وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری صدر پاکستان وزیراعظم کی تجویز پر کریں گے جبکہ صدر مملکت وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی تقرری چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے۔
ججوں کی تقرری کے لیے قومی اسمبلی کی کمیٹی 8 ممبران پر مشتمل ہوگی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اس کمیٹی کے ممبران کا تمام پارلیمانی پارٹی کے تناسب سے انتخاب کریں گے۔ یہ کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 7 روز قبل اپنی سفارشات وزیراعظم کو بھیجے گی۔
مزید پڑھیں: خصوصی پارلیمانی کمیٹی اجلاس، مولانا فضل الرحمان کی ترمیمی بل مؤخر کرنیکی تجویز
وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی حد عمر 68 سال ہوگی۔ سپریم کورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت میں 3 سال کے لیے جج تعینات ہوگا۔
آئینی ترمیمی بل میں ہائیکورٹس سے سو موٹو لینے کا اختیار واپس لینے کی بھی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ ہائیکورٹس کے ججوں کی ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ تبادلے کی تجویز بھی شامل ہے۔
مسودے کے مطابق سروسز چیف کی تقرری اور ایکسٹینشن کے حوالے سے آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو آئینی تحفظ حاصل ہوگا اور اس متعلقہ قانون میں ترمیم اس وقت تک ممکن نہیں ہوگی جب تک آئین میں ترمیم نہ کرلی جائے۔
آئینی ترمیمی بل میں یہ بھی تجویز شامل ہے کہ کسی بھی جج کا عہدہ خالی ہونے کی صورت میں صدر پاکستان کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی ریٹائرڈ جج کو بھی آئینی عدالت کا جج تعینات کرسکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: آئینی ترمیمی بل کے تمام نکات سے مطمئن ہیں، صادق سنجرانی
آرٹیکل 179 بی کے اضافے کے ساتھ وفاقی آئینی عدالت کی خالی سیٹ پر صدر مجوزہ طریقہ کار کو اپناتے ہوئے کسی ریٹائرڈ جج کو عارضی جج کے طور پر تعینات کرسکتے ہیں اور وہ تب تک اپنی ذمہ داریوں کو انجام دے سکتے ہیں جب تک صدر تعیناتی کالعدم نہ کردیں۔
مجوزہ آئینی ترمیم میں چیف الیکشن کمشنر اور ممبر الیکشن کمیشن کی مدتِ ملازمت سے متعلق بھی ترمیم شامل ہے۔
آئین کے آرٹیکل 215 میں ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر یا ممبر الیکشن کمشنر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عہدے پر اس وقت تک کام جاری رکھ سکتے ہیں جب تک نیا چیف الیکشن کمشنر یا ممبر کی تعیناتی نہیں کردی جاتی۔
اس کے علاوہ جو چیف الیکشن کمشنر یا ممبر الیکشن کے عہدے ہر پہلے سے تعینات رہے ہوں ان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے قرارداد کے ذریعے دوبارہ 3 سال کے لیے تعینات کیا جاسکتا ہے۔
مجوزہ آئینی ترمیمی بل میں اسلام آباس ہائیکورٹ کے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار بھی تبدیل کرنے کی تجویز ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تقرری کے لیے قائم کمیشن میں اب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ساتھ اسلام آباد بار کا نمائندہ اور ایک وفاقی وزیر شامل ہوگا۔ موجودہ قانون کے مطابق چیف جسٹس اور سینیئر ترین جج کمیشن کا حصہ ہیں۔