ایک زمانہ تھا جب کسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے کلاسیکل گویّے غزل یا گیت گانے کو معیوب خیال کرتے تھے۔ حسبِ رواج پہلے بادشاہ اور بادشاہت کے زوال کے بعد راجوں مہاراجوں اور نوابوں کے دربار سے بطور گویّا وابستہ ہونا قابلِ فخر گردانا جاتا تھا۔
جب ریکارڈنگ کا زمانہ آیا تو بہت سے نامور کلاسیکل گویّوں نے ریکارڈنگ کرانے سے انکار کر دیا۔ ریکارڈنگ نہ کروانے کی وجوہات میں سے ایک وجہ پابند گانا نہ گانا بھی تھا۔ بہرحال وقت کی بے رحم چال بڑوں بڑوں کو اپنے فیصلے بدلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
یہی کچھ استاد امانت علی خاں کے ساتھ ہوا۔ ابوالحسن نغمی اپنی کتاب ‘یہ لاہور ہے’ میں امانت علی خاں کے خاکے میں لکھتے ہیں، “جس شخص نے کلا سیکی موسیقی کی فلک بوس چوٹیوں کو فتح کیا ہو، اس کے لیے غزل گانا کیا مشکل تھا؟ جب وہ باتیں کرتے تھے تو خفیف سا ناک میں بولتے تھے۔ اگر کوئی عیب کی حد تک ناک میں بولے تو اسے منمنا کہا جاتا ہے لیکن امانت کی نیزل آواز ہماری موسیقی کی تاریخ کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ ان کی آواز میں وقار تھا، انہیں اللہ نے گہری، گنیری مردانہ آواز عطا کی تھی، جس میں مقناطیسیت بدرجہ اُتم تھی ا ور ناک کے بانسے کی آواز نہایت پُرکشش تھی۔ وہ موسیقی کے علم کے متبحر عالم تھے اور ان کی صورت، ان کا سراپا اور لباس ایسا تھا کہ انہیں دیکھ کر مغل شاہزادہ سلیم یاد آتا تھا۔ سنیے، ذرا دھیان سے سنیے وہ گا رہے ہیں، یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رو بہ رو کرتے۔”
انجم شیرازی اپنی کتاب ‘غزل گائیکی’ میں لکھتے ہیں، “پٹیالہ گھرانے کے فن کار، اُستاد امانت علی خاں موسیقی کی کلاسیکی روایت کے امین اور نمائندہ تھے۔ وہ اپنے بھائی اُستاد فتح علی خاں کے ساتھ جوڑی کی شکل میں فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ کلا سیکی موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا اُن کی خاندانی روایت تھی جس پر اُنھوں نے عمل کیا۔ اُنھوں نے خیال گائیکی، ترانہ اَور ٹھمری کے ذریعے اَپنے بزرگوں کا نام روشن کیا۔ گھرانوں کی روایت میں لائٹ موسیقی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا؛ مگر امانت علی خاں کی طبیعت نے کروٹ بدلی اور کلاسیکی فن کا رُخ لائٹ موسیقی کی طرف مو ڑ لیا جو کہیں ملی نغمے کی صورت میں جلوہ گر ہوا تو کہیں اُس نے گلشنِ غزل میں نئے شگوفے کھلائے۔
“یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امانت علی خاں نے جب غزل گائیکی کے میدان میں قدم رکھا، اُس وقت غزل گانے والوں میں سخت مقابلے کی فضا چھائی ہوئی تھی۔
“فریدہ خانم، اقبال بانو، مہدی حسن، پرویز مہدی اور غلام علی کی غزلوں نے دھوم مچا رکھی تھی اور ایک سے بڑھ کر ایک غزل مارکیٹ میں آ رہی تھی۔ مگر امانت علی خاں نے غزلوں کے انتخاب میں کمال ذہانت کا ثبوت دیا اور اُن کی ایسی دھنیں مرتب کیں جنھیں خواص اور عوام دونوں نے خوب سراہا۔ یہ کام ایک کلاسیکی گائیک کے لیا اتنا آسان نہیں تھا کیوں کہ کلاسیکی گائیک کا آکار لائٹ موسیقی کے لیے مناسب نہیں ہوتا اور نہ ہی اُس کا لہجہ کلام کے مطابق ہوتا ہے۔
“یہی وجہ ہے کہ کلاسیکی فن کار، موسیقی کے اسرار و رموز سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود، غزل کی معنویت اور حسن کو اُجاگر کرنے کے بجائے اُسے اور پیچیدہ اور بوجھل بنا دیتے ہیں؛ گویا وہ اچھی غزل نہیں گا سکتے۔ یہ واقعہ ہے کہ کلاسیکی موسیقی کے بعض نامور اَساتذہ نے غزل گانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے اور ‘عشق اک میر بھاری پتھر ہے’ کے مصداق خیال گائیکی میں اِس لیے واپس لوٹ گئے کہ غزل بظاہر آسان مگر در حقیقت گائیکی کا ایک مشکل انداز ہے۔ تاہم امانت علی خاں نے یہ ‘بھاری پتّھر’ اُٹھا لیا اور خود کو ایک باکمال غزل گائیک ثابت کر دکھایا۔”
ابوالحسن نغمی اسی تناظر میں لکھتے ہیں، “جس دن امانت علی خاں نے کلاسیکی موسیقی کی مسندِ زر نگار سے اُتر کر پہلے پہل غزل گائی تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس دن ان کے والد کو کتنا صدمہ پہنچا ہوگا مگر وہ اس صدمے کو جھیل گئے اور امانت نے جو غزلیں گائیں، وہ ہماری موسیقی کی تاریخ میں گنج گراں مایہ ثابت ہوئیں۔”
1965 کی پاک بھارت جنگ میں ملکہ ترنم نور جہاں کی آوز میں تمام جنگی ترانے پروڈیوس کرنے والے ریڈیو پاکستان کے معروف میوزک پروڈیوسر اعظم خان بتاتے ہیں کہ “میرا خیال تھا امانت علی خاں کا گلا بہت اچھا ہے اگر یہ غزل گائیں تو ناموری کے بہت امکانات ہیں۔ کلاسیکل موسیقی میں تو وہ پہلے ہی بہت معروف تھے۔ یہ 1967 کی بات ہے میں نے انھیں غزل گانے کی تجویز دی۔ خواجہ حیدر علی آتش کی غزل تھی، ‘یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رو بہ رو کرتے ‘
“اس غزل کی دُھن ریڈیو پاکستان لاہور سے وابستہ شامی چوراسی گھرانے کے موسیقار نیاز حسین شامی نے بنائی۔ شامی صاحب بہت سی لازوال دُھنیں تخلیق کر چُکے ہیں۔ وہ استاد سلامت علی خاں او ر نزاکت علی خاں کے چچا تھے۔ جب یہ غزل نشر ہوئی تو غزل گائیکی کا ایک نیا انگ متعارف ہوا۔”
اداء جعفری کی لکھی ہوئی اور امانت علی خاں کی دوسری گائی ہوئی معروف غزل ‘ہونٹوں پہ کبھی اُن کے مرا نام ہی آئے’۔ یہ پروڈکشن بھی اعظم خان اور موسیقی نیاز حسین شامی کی تھی۔
نواز کا لکھا ہوا، اور امانت علی خاں کا گایا ہوا پنجابی ملی نغمہ ‘ایہ دھرتی میرا سونا یارو’ بھی سامعین کی سماعتوں کا حصہ بن گیا۔ اس ملی نغمے کی دُھن ریڈیو کے پروڈیوسر عبدا لحق قریشی نے بنائی۔ قریشی صاحب معروف ریڈیو پروڈیوسر عبد الشکور بے دل اور بھارتی موسیقار خیام کے بہنوئی تھے۔
امانت علی خاں کے آخری دنوں میں گائی ہوئی غزل ‘انشاء جی اُٹھو اب کوچ کرو’، جو شائقین میں آج بھی بہت مقبول ہے، کی دھن بھی نیاز حسین شامی کی بنائی ہوئی ہے۔
ڈان نیوز کے ایک آن لائن جائزے کے مطابق ‘اے وطن، پیارے وطن، پاک وطن’ ہر دور میں پاکستانیوں کا پسندیدہ ترین ملی نغمہ رہا ہے۔ یہ لازوال نغمہ کرم حیدری نے لکھا، اختر حسین اکھیاں نے کمپوز کیا، اور استاد امانت علی خاں نے اپنی سریلی آواز میں گایا ہے۔
نام ور نقاد اور افسانہ نگار ڈاکٹر مرزا حامد بیگ بتاتے ہیں کہ امانت علی خان دن ڈھلے ریگل چوک کے پاس ایک احاطے میں آجایا کرتے تھے۔ جہاں فریج ٹھیک کرنے والے ان کے ایک دوست کی ورکشاپ تھی۔ وہاں دوستوں سے گپ شپ اور شغل میلہ لگا رہتا۔ پھر وہ سرِ شام پاک ٹی ہاؤس کو چل نکلتے۔ ابوالحسن نغمی لکھتے ہیں کہ پاک ٹی ہاؤس آ کر ادیب و شاعروں کے ساتھ نشست جمانے والے وہ واحد فنکار تھے۔
پٹیالہ گھرانے کے گُنی کلاکار استاد امانت علی خاں 1974ء میں ستمبر کے تیسرے ہفتے اپنڈیکس کی وجہ سے صرف 52 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔
استاد غلام حیدر خاں اپنی انگریزی کتاب ‘میوزک اینڈ ریڈیو پاکستان’ میں لکھتے ہیں کہ امانت علی خاں کی وفات اتنا بڑا سانحہ تھا کہ استاد فتح علی خاں نے بھائی کی موت کے صدمے میں کافی عرصہ گانا ہی نہیں گایا۔
بدقسمتی دیکھیے کہ امانت علی خاں کے ہونہار فرزند اسد امانت علی خاں بھی محض 51 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔
مجھے کئی مرتبہ اسد امانت علی خاں کا گانا سُننے کا اتفاق ہوا۔ کیا توانائی اور لگن سے وہ گاتے تھے۔ امانت علی خاں صاحب کے چھوٹے فرزند شفقت امانت بھی پاک و ہند میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چُکے ہیں۔
استاد امانت علی خاں صاحب اپنی کُھلے گلے کی گائیکی، مدھر سُروں اور روح دار گانے کی وجہ سے اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
‘موسم بدلا رُت گدرائی’۔ آج بھی استاد امانت علی خاں کی گائی ہوئی یہ غزل سُنیں تو آپ اپنی طبعیت میں ایک کوملتا محسوس کریں گے۔ سُننا شرط ہے۔