اسمارٹ فارمنگ: مٹی اور کھاد کے بغیر فصلیں اگانا ممکن

پیر 16 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے اسمارٹ فارمنگ کا ایسا نمونہ تیار کیا گیا ہے جس سے پانی اور کھادوں کی بچت کرتے ہوئے کم رقبے پر بڑی فصل اگا کر بہت سے زرعی و ماحولیاتی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ٹی میں 3 لاکھ، زراعت میں ایک ہزار نوجوان تربیت کے لیے چین بھیجے جائیں گے، وزیراعظم

اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مٹی اور کھاد کے بغیر پانی میں پودے اگانے کی یہ ٹیکنالوجی خاص طور پر شہری علاقوں میں زراعت کے فروغ میں مدد دے سکتی ہے۔

اس ٹیکنالوجی کی بدولت زراعت میں 90 فیصد تک پانی اور 25 فیصد تک کھادوں کی بچت ممکن ہے اور روایتی کھیتی باڑی میں کئی مقاصد کے لیے نقل و حمل سے ہونے والے کاربن کے اخراج پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی اقرا یونیورسٹی کراچی میں شعبہ انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کے سائنس دان ڈاکٹر منصور ابراہیم کی زیرقیادت ٹیم نے تیار کی ہے جس کے دیگر ارکان میں ڈاکٹر کامران رضا اور ڈاکٹر حسن عادل شامل ہیں۔

اقرا یونیورسٹی پاکستان میں اقوام متحدہ کے پروگرام ’یونائیٹڈ نیشنز اکیڈیمک امپیکٹ‘ سے وابستہ تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ تعلیم تک رسائی بڑھانا، معاشی و سماجی استحکام، حقوق کا فروغ و تحفظ اور تنازعات کا خاتمہ اس پروگرام کے بنیادی مقاصد ہیں۔

خودکار زراعت

ڈاکٹر منصور ابراہیم کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا بنیادی مقصد مٹی اور کھاد کے بغیر ریت، کنکر اور پانی میں پودے اگانے کے طریقے (ہائیڈروپونکِس) کی بنیاد پر ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنا ہے جس میں سینسر، سافٹ ویئر اور ایسی دیگر چیزوں اور مصنوعی ذہانت کے ملاپ سے پودوں کی نمو کے لیے موثر، پابند اور خودمختار ماحول تخلیق کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہائیڈروپونکس طریقہ کار میں پودوں کو مٹی کے بغیر ایسے پانی میں اگایا جاتا ہے جس میں ان کے اضافے کے لیے درکار عناصر وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے: محکمہ زراعت کی ’گلِ کلغہ ‘ باغات اور باغیچوں میں منتقل کرنے کی ہدایت

اس طریقہ کار میں سینسر، سافٹ ویئر اور مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام کے ذریعے فصل میں اضافے کے ہر مرحلے کو جانچا جاتا ہے اور اس سارے عمل کو اسمارٹ فون پر ایک ایپ کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

سینسر پودوں کو مطلوبہ حالت میں برقرار رکھنے کے لیے انہیں دیے جانے والے مداخل اور پیداوار کی نگرانی کرتے ہیں۔ ان سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر بنائے گئے ایک نظام کے ذریعے تجزیہ کیا جاتا ہے جسے اس مقصد کے لیے پودوں کی کیمرے اور ڈرون سے مخصوص وقت میں لی گئی تصاویر اور مختلف مراحل میں ان کی نمو سے متعلق معلومات فراہم کی جاتی ہیں جن کے ذریعے مصنوعی ذہانت کا نظام فصل کی حالت کے بارے میں درست آگاہی دیتا ہے۔

زرعی، غذائی اور ماحولیاتی تحفظ

ترقی پذیر ممالک میں معاشی ترقی، غذائی تحفظ، روزگار کے مواقع کھولنے اور غربت کو کم کرنے میں زرعی شعبے کا کردار ناگزیر ہے۔

پاکستان کا شمار بھی انہی ممالک میں ہوتا ہے جہاں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں زرعی شعبے کا حصہ تقریباً ایک چوتھائی ہے اور ملک کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کسی نہ کسی طور اسی شعبے سے وابستہ ہے۔

تاہم بہت سے عوامل کے باعث ملک میں زرعی پیداوار مستحکم نہیں رہتی۔ ان میں قابل کاشت رقبے میں ہوتی کمی، تیزرفتار موسمیاتی تبدیلی، دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی اور سب سے بڑھ کر پانی کی قلت اور اس کا کھاری ہونا خاص طور پر نمایاں ہیں۔

پاکستان میں پانی کا کتنا حصہ زراعت پر صرف ہوتا ہے؟

اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق پاکستان میں استعمال ہونے والے مجموعی پانی کا 90 فیصد سے زیادہ زرعی شعبے کو جاتا ہے لیکن آبپاشی کے ناقص انتظام کے باعث اس کی 60 فیصد مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔

پانی کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث کسان زیرزمین پانی استعمال کرتے ہیں جو بہت سے علاقوں میں کھارا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں زرخیز زمینیں سیم اور تھور کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو ملک کو آئندہ برسوں میں 70 ملین ٹن خوراک کی قلت کا سامنا ہو گا۔

منصور ابراہیم نے بتایا کہ اسمارٹ فارمنگ پاکستان کو درپیش (متذکرہ بالا) چاروں بڑے مسائل مسائل کا مقامی ماحول اور حالات کی مطابقت سے پائیدار حل پیش کرتی ہے۔ ملک میں اسمارٹ فارمنگ کو قومی سطح پر بھی تسلیم کر لیا گیا ہے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن اس ٹیکنالوجی پر تحقیق کے لیے تعلیمی اداروں کو مالی وسائل بھی مہیا کر رہا ہے۔

کاشتکاری کا انقلابی تصور

ان کا کہنا ہے کہ اقرا یونیورسٹی کے زیراہتمام اس مںصوبے کے پہلے مرحلے میں سبزیاں اگانے کے لیے یہ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی جس کے امید افزا نتائج آئے ہیں۔ ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسمارٹ فارمنگ پاکستان میں قابل عمل اور ماحولیاتی اعتبار سے ایک مفید متبادل ہے۔

مزید پڑھیں: گھر کی چھت پر کون کون سی سبزیاں اگائی جا سکتی ہیں؟

اسمارٹ فارمنگ کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس کی بدولت کام کے وقت اور زرعی رقبے کی بچت ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ شہری علاقوں میں زراعت کے لیے بہت سے امکانات کی حامل ہے۔

منصور ابراہیم کہتے ہیں کہ کسی فصل کی نمو کے مختلف مراحل کو بالکل درست طور سے جانچنے کے لیے مصنوعی ذہانت کو مزید بہت سی معلومات درکار ہیں۔ اس وقت تک پاکستان میں یہ منصوبہ مشین اور انسان کی ایک مشترکہ کوشش رہے گا۔ تاہم موجودہ شکل میں بھی اسے بڑے پیمانے پر پھیلایا جا سکتا ہے جو صرف شہری علاقوں میں زراعت کے فروغ میں مددگار ہو گا بلکہ روایتی کاشتکاری کے تصور کو بھی بدل دے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp