فن پاروں کی چوری خوش آئند ہے

منگل 17 ستمبر 2024
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سوشل میڈیا پر سندھ کے شہر ڈہرکی کے  مصور سیفی سومرو کی ایک پوسٹ نگاہ سے گزری۔ خلاصہ یہ ہے کہ سیفی سندھ یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں پڑھتے تھے۔ سنہ 2017 میں انہوں نے بطور تھیسس 2 پینٹنگز بنائیں۔ ان پینٹنگز کو بعد ازاں کراچی کے تاریخی فریئر ہال میں منعقد ہونے والی ایک نمائش میں رکھا گیا۔ مگر وہ پینٹنگز واپس نہیں کی گئیں۔ نمائش کے منتظمین نے کہا کہ شاید وہ  گم ہو گئی ہیں۔ سیفی سومرو صبر شکر کر کے  واپس چلا گئے۔

بقول سیفی سومرو کچھ دن پہلے وہ دونوں پینٹنگز اے آر وائی ڈیجیٹل کی ڈرامہ سیریز ’کبھی میں کبھی تم‘ کی قسط نمبر 17  کے ایک منظر میں دکھائی دیں۔ سیفی کا اندازہ ہے کہ دونوں پینٹنگز گم نہیں ہوئیں بلکہ غالباً  فریئر ہال کے نمائش کنندگان  یا چور نے انہیں کسی ’قدر دان‘ کو فروخت کر کے پیسے کھرے کر لیے۔ سیفی کے پاس اتنے مالی وسائل اور وقت نہیں کہ وہ یہ چھان پھٹک کر سکیں کہ ان کی ’جبری گمشدہ‘ پینٹنگز کن کن ہاتھوں سے گزر کے مذکورہ ڈرامے میں استعمال ہوگئیں۔ سیفی نے سرکار اور عدالت سے اس بارے میں مدد کی درخواست کی ہے۔

کچھ ایسا ہی واقعہ اس ملک کے ایک معروف کارٹونسٹ فیکا کے ساتھ ہو چکا ہے۔ فیکا روزنامہ ڈان اور ہیرلڈ میں لگ بھگ 25 برس تک کارٹون اور اسکیچز بناتے رہے۔ ان کی اپنی ویب سائٹ ہے۔ انہوں نے کراچی پریس کلب کو چند برس پہلے ازراہِ محبت اپنا ایک ’اسکیچز کولاج ورک‘  فریم کروا کے پیش کیا۔ پچھلے دنوں یہ فریم غائب ہو گیا۔ پریس کلب کی انتظامیہ نے اسے چوری کا واقعہ قرار دیا ۔ بقول فیکا اگر یہ چوری ہے تو پھر پریس کلب کی انتظامیہ اس مبینہ چوری کی ایف آئی آر  کیوں درج نہیں کروا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تسی گیم شروع کرو اللہ وارث ہے

مجھے ذاتی طور پر ان دونوں واقعات کا دکھ بھی ہے اور خوشی بھی۔ دکھ غائب ہونے یا چوری کا ہے۔ خوشی یوں ہے کہ اب تک ہم سنتے آئے تھے کہ مغربی ممالک میں ہی مصوری کے نادر یا بیش قیمت فن پاروں کی چوری ہوتی ہے یا وہ پراسرار طور پر غائب ہو جاتے ہیں۔ مگر ہمارے  ملک میں بھی اب مصوری کے ایسے قدر دان پیدا ہو چکے ہیں جنہیں ہر حال میں وہ فن پارے چاہییں جو پسند آ جائیں بھلے چوری یا سینہ زوری ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔

مزید خوشی یوں ہے کہ تخلیقی خیال، مصرعوں اور دھنوں کی چوری کا سفر اب ترقی کرتے کرتے آرٹ کی چوری تک پہنچ چکا ہے۔ البتہ کتاب کی چوری کے بارے میں بہت عرصے سے نہیں سنا۔ اس خودساختہ دعوے کا ثبوت یہ ہے 50 برس پہلے جب آبادی بھی آج کے مقابلے میں کم تھی اور خواندگی کی شرح بھی بہتر نہیں تھی۔ تب کسی کتاب کا ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہونا معمول کی خبر تھی۔

20 برس پہلے کتاب کا پہلا ایڈیشن اگر 500 بھی چھپ جاتا تو لوگ مصنف کو مبارک باد دیتے۔ پھر یہ تعداد کم ہو کر 250 تک پہنچ گئی اور اب یہ صورتِ خال ہے کہ ہمارے عزیز پبلشر دوست اجمل کمال جو گزشتہ ڈھائی دہائیوں سے ادبی رسالہ ’آج‘ نکال رہے ہیں اور اس کے علاوہ وہ بیسیوں مصنفوں کے  ترجمے کر کے شائع کر چکے ہیں اور طبعزاد کتابیں بھی چھاپتے ہیں لیکن اب ان کا کتابی شو روم ایک گودام نظر آتا ہے جہاں نہ فروخت ہونے والی کتابوں کے سبب چلنے کی جگہ بھی بمشکل بچی ہے ۔ ’آج‘  رسالے کی سالانہ سبسکرپشن 2،3 برس پہلے تک 600 سے زائد ادب نواز قارئین پر مشتمل تھی۔ اب یہ حال ہے کہ اجمل جدید پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے آج میگزین کی 50 کاپیاں چھاپتے ہیں اور کسی بھی عندالطلب کو مطالبے پر فراہم کر دیتے ہیں۔ لیجیے باتوں باتوں میں ہم مصوری کی چوری کا ذکر کرتے کرتے کتابوں تک آ گئے۔

یورپ اور امریکا وغیرہ میں اگر شاہکار فن پارے چوری ہوتے ہیں تو اس بارے میں یہ سوچ کے بہت زیادہ  دکھ نہیں ہوتا کہ خود مغربی سامراج نے بھی تو پسماندہ ممالک کا ثقافتی ورثہ نوآبادیاتی دور میں جی بھر کے لوٹا اور پھر اسے بڑے فخر کے ساتھ اپنے عجائب گھروں اور محلات میں سجا دیا۔

البتہ مغربی ممالک میں آرٹ کی چوری کے سدباب کے لیے کچھ نہ کچھ قانون سازی ضرور ہوئی ہے اور کئی فن پارے ریاستی اداروں کی کوشش سے اکثر بازیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں آرٹ کے تحفظ کے لیے کوئی مؤثر قانون اگر ہے بھی تو مجھے اس کا علم نہیں۔ (ویسے بھی جن مسائل کے بارے میں مؤثر قوانین موجود ہیں وہ بھی کہاں حرکت میں آتے ہیں)۔

مزید پڑھیے: کھاؤں کدھر کی چوٹ بچاؤں کدھر کی چوٹ

چند برس پہلے میرا ٹیکسلا میوزیم جانا ہوا۔ میوزیم کے باہر 2،4  سووینیر شاپس تھیں جہاں زیادہ تر گوتم بدھ کے چھوٹے بڑے مجسمے بک رہے تھے۔ ایک مقامی صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پہلے میوزیم کے لیے گائیڈ کا  کام کرتے تھے۔ اب اپنا کام کرتے ہیں۔ میں نے دکانوں پر موجود بدھا کے کچھ قدامت گزیدہ مجسموں کے بارے میں  پوچھا کہ یہ کیا اصلی ہیں؟ کھدائی کے دوران نکلے ہیں؟ کہنے لگا کہ اصلی والے تو سرکار کی ملکیت ہوتے ہیں۔ البتہ یہاں ایک کاریگر ہے جو خود  ڈھائی ہزار برس پرانے مجسمے بناتا ہے۔ میں نے پوچھا ملاقات ہو سکتی ہے؟ اس پر وہ ہنس پڑے۔

چلہے ڈھائی ہزار سال پرانا مجسمہ بنانے کی ترکیب ہی بتا دیں۔ کہنے لگے کہ  وہ ایسے بنتا ہے کہ پہلے اسے تراشا جاتا ہے پھر اسے مخصوص کیمیکل لگا کے زمین میں دبا دیا جاتا ہے۔ جب  کچھ مہینوں بعد نکالا جاتا ہے تو وہ دیکھنے میں پرانا لگتا ہے۔ گورے، جاپانی اور کورین وغیرہ ان کی اچھی قیمت دے دیتے ہیں۔

مزید پڑھیے: 67 منٹ کا منڈیلا

اس نے مجھے دھیمی آواز میں بتایا کہ اصلی مال تو اس ملک کی اشرافیہ کے ڈرائنگ رومز میں یا پھر غیر ملکی گاہکوں کے پاس ہے ۔ آپ جن آئٹمز کو دیکھ دیکھ کر عش عش کرتے ہیں ان میں سے اکثر اصل کا ریپلیکا ہیں۔ پتا سب کو ہے پر منہ کوئی نہیں کھولتا۔ مرنا تھوڑی ہے۔

میں اس گائیڈ کے انکشافات کی نہ تو تصدیق کر سکتا ہوں نہ تردید۔ مگر یہ معاملہ سنجیدگی سے تحقیق طلب ضرور ہے۔ فی الحال یہی کہنا بہتر ہے واللہ اعلم بالصواب۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp