سپریم کورٹ میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور اسلامک یونیورسٹی کے وکیل ریحان الدین گولڑہ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، جس کے بعد وکیل اور ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔
جمعہ کو سپریم کورٹ میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے مقدمے کی سماعت ہوئی ہو رہی تھی اور اس دوران ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک وہیل چیئر پرکمرہ عدالت میں پیش ہوئیں۔
ریکٹر اسلامک یونیورسٹی ثمینہ ملک جب وہیل چیئر پر کمرہ عدالت میں داخل ہوئیں تو وکیل اسلامک یونیورسٹی نے کہا کہ چیف جسٹس نے الزام لگایا تھا کہ ان کا میڈیکل سرٹیفکیٹ جعلی ہے لیکن ڈاکٹر ثمینہ کی حالت خود دیکھ لیں اس حالت میں میڈیکل سرٹیفکیٹ کیسے جعلی ہو سکتا ہے؟
چیف جسٹس آف پاکستان نے وکیل ریحان الدین گولڑہ سے کہا کہ جب میڈیکل سرٹیفکیٹ اور دوسری دستاویز میں نام مختلف درج ہوں گے تو شک تو ہوگا۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کا کہنا ہے کہ ثمینہ ملک کو جب بھی میٹنگ کے لیے بلایا جاتا ہے تو وہ بیماری کا بہانہ بنا کر میٹنگ میں شریک ہی نہیں ہوتیں۔ اس پر وکیل نے کہا کہ ثمینہ ملک تو صرف ایک میٹنگ میں شرکت نہیں کر سکیں، دیگر میٹنگز میں تو وہ آن لائن شرکت کرتی ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی کی ریکٹر ثمینہ ملک کو لے جاؤ یہ ڈارمہ کر رہی ہے اس کی ضرورت نہیں ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیماری کا سن سخت غصے میں آگئے
ثمینہ ملک کو ویل چیئر پر عدالت سے باہر لایا جا رہا ہے pic.twitter.com/TwmczLlf5a— Nadir Baloch (@BalochNadir5) September 20, 2024
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پھر استفسار کیا کہ کیا ہائر ایجوکیشن کمیشن کا دفتر کسی دوسرے شہر میں ہے جو آن لائن شرکت کرتی تھیں؟۔
اس پر وکیل ریحان الدین گولڑہ نے کہا کہ آپ نے یونیورسٹی بورڈ اجلاس میں بطور رکن بھی یہ سوال پوچھا تھا، وہاں بھی جواب دیا تھا آج عدالت میں بھی وہی جواب دے دیتا ہوں۔
اسلامی یونیورسٹی کے وکیل نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پر اعتراض کر دیا، وکیل نے کہا کہ آپ نے بطور بورڈ رکن اجلاس میں سارے سوالات پوچھے تھے، آپ بورڈ کے رکن بھی ہیں اس لیے مناسب ہوگا یہ کیس نہ سنیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق چیف جسٹس یا اس کا نمائندہ کئی جامعات کے بورڈ کا رکن ہوتا ہے، جب معلومات نہ دینی ہوں تو اعتراض کر دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میرے کسی اہلخانہ کی ڈگری کا کوئی مسئلہ ہوتا تو اعتراض بجا ہوتا، آپ نے کرائے کے جو لوگ رکھے ہیں پراپیگنڈہ کے لیے آج اس کو بھی دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم خاموش ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بدتمیزی کریں، وکیل ریحان گولڑہ کو روسٹرم سے ہٹایا جائے۔ اس موقع پر سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے وکیل ریحان گولڑہ کو روسٹرم سے ہٹا دیا۔
حیران کن صورتحال ! چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہدایت پر ریکٹر اسلامی یونیورسٹی کو ویل چیئر پر کمرہ عدالت میں پہنچایا گیا ! ایک سوال کے جواب میں ریکٹر نے عدالت کو جواب جمع کرانے کی۔مہلت مانگی تو چیف جسٹس نے کہا یہ ڈرامہ ہے ! اسے لے جائیں یہاں سے ! اگر آپ خرابی صحت کے باعث کام نہیں… pic.twitter.com/wAfBHX1rl3
— Adeel Sarfraz (@AhmedASarfraz) September 20, 2024
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈاکٹر ثمینہ میڈیا کے نمائندوں کے قریب کیا کر رہی ہیں، انہیں قریب بلایا جائے ؟ جب وہ قریب آئیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے سوال کیا کہ آپ ایچ ای سی کے اجلاسوں میں شرکت کیوں نہیں کرتیں؟ جس پر ثمینہ ملک نے کہا کہ میں دوائی کے اثر میں ہوں، کچھ وقت دیں، سوالات کے جواب دے دوں گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے ڈراما کرنا ہے تو یہاں سے چلی جائیں۔ چیف جسٹس نے کمرہ عدالت سے ثمینہ ملک کی روانگی کے ساتھ ہی صحافیوں کے بھی باہر جانے پر برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے آسان کام چیف جسٹس کو گالیاں دینا ہے، گالم کلوچ کرو تو سب ٹھیک ہے، کسی کے کہنے پر صرف ایک سوموٹو نوٹس لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم پھر توہین عدالت کا نوٹس لے کر جیل بھیجنا شروع کر دیں؟ پوچھتا ہوں پورے پاکستان میں ایک ہی خاتون ملی ہے جو ہر وقت بیمار رہتی ہے؟انہوں نے کہا کہ اب لوگوں کو میڈیا پر ہائر کرکے گالم کلوچ شروع کر دی جائےگی، اگر ریکٹر بیمار ہیں کام نہیں کر سکتیں تو عہدہ چھوڑ دیں۔