آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعت میں شمولیت کا عمل نا قابل واپسی ہے، حکومت کا سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل

پیر 23 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کچھ نئی چیزیں ہیں، آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعت میں شمولیت کو واپس نہیں کیا جاسکتا، عدالت  نے نئی ترمیم پر کوئی رائے نہیں دی،  سارے سوالات پہلے کی طرح ہی موجود ہیں۔

پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تحریک انصاف نہ تو پشاور ہائیکورٹ، نہ الیکشن کمیشن اور نہ ہی سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں فریق تھی۔

یہ بھی پڑھیں:مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری، الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم قرار

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد بھی یہ سوالات اپنی جگہ موجود ہیں، سارے سوالات پہلے کی طرح ہی موجود ہیں اس کے علاوہ کئی سوالات کے جوابات تفصیلی فیصلے میں بھی موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قانون بہت واضح ہے کہ الیکشن کے 3 دن بعد آزاد امیدواروں کو پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بارے میں رائے دی جا سکتی ہے، جو کچھ مختصر فیصلے میں کہا گیا تھا تفصیلی فیصلہ بھی اسی تناظر میں آنا تھا، اس فیصلے میں پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کے بارے میں کوئی بات نہیں ہے اور ہونی بھی نہیں چاہیے تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 66 اور سیکشن 104 اے میں میں 2 بنیادی ترامیم کی گئیں وہ قانون آج بھی موجود ہے، پارلیمنٹ نے جو قانون بنایا کہ آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 106 کی منشا ہے کہ اگر آپ آزاد حیثیت میں الیکشن جیت کر آئے ہیں تو آپ کو 3 روز کے اندر کسی سیاسی جماعت کو جوائن کرنا ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستوں سے متعلق وضاحتی فیصلہ، سپریم کورٹ کی الیکشن کمیشن کو سنگین وارننگ

انہوں نے کہا کہ ملکی قانون کہتا ہے کہ اگر آپ نے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی ہے تو یہ فیصلہ نا قابل واپسی ہے۔

آئین کا آرٹیکل 51 بھی یہی کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر مخصوص نشستوں کی جو تقسیم ہو گی وہ بھی قانون کے مطابق ہی ہوگی، آرٹیکل 106 جو صوبوں کو ڈیل کرتا ہے اس میں بھی یہی بات ہے۔

سپریم کورٹ کے اپنے کئی فیصلے آ چکے ہیں کہ پارلیمان کی قانون سازی کا اختیار کلی ہے اور عدالتی فیصلوں پر پارلیمان کی قانون سازی کو فوقیت حاصل رہے گی۔ دیکھا جائے تو یہ اختیار جوں کا توں موجود ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نظر ثانی غیر مؤثر نہیں ہوئی، آئین کے تحت قانون اس حق دیتا ہے، کئی سیاسی جماعتوں کے نظر ثانی کے کیسسز موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: کیا مخصوص نشستوں سے متعلق بل کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا؟

وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد نظر ثانی کی درخواستوں کو مزید تقویت مل گئی ہے، مخصوص نشستوں سے متعلق کیسسز کی سماعتیں باقاعدہ نچلی سطح سے شروع ہوئی ہیں ، سب سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ آیا جو پشاورہائیکورٹ میں چیلنج ہوا اور وہاں سے کے لارجر بینچ نے 0-5 کی اکثریت کے ساتھ فیصلہ دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ مکمل طور پر آئین کے تحت درست ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے 184 (3)  میں بھی اسے نہیں ڈالا یعنی عدالت نے کوئی سو موٹو ایکشن نہیں لیا اور تفصیلی فیصلے میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کے علاوہ آئین کا آرٹیکل 187 سپریم کورٹ کو جو اختیار دیتا ہے تو اس حوالے سے بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کی اپنی ججمنٹس ہیں، اس میں عدالت ابہام دور کرنے کے لیے کوئی بھی فیصلہ دے سکتی ہے۔

مخصوص نشستوں سے متعلق مقدمے میں آئین کا آرٹیکل 185 (3 ) لاگو ہوتا ہے جس میں یہ دیکھنا تھا کہ عدالت میں کون سی پارٹی آئی ہے، کون ریلیف مانگنے آیا ہے، کس نے اپنا مقدمہ درج کیا ہے اور اس کی درخواست کیا اور اس کی نوعیت کیا ہے؟

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے سے آئین کی کون کون سی دفعات متاثر ہوئیں؟

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس مقدمے میں ایک ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ وہ پارٹی (پاکستان تحریک انصاف ) جو کہ فریق نہیں تھی، وہ پارٹی جو الیکشن کمیشن میں ریلیف مانگنے گئی نہ ہی پشاور ہائیکورٹ میں اور نہ ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں فریق بنی ہے۔

سپریم کورٹ میں اس درخواست پر کارروائی ہوئی جو کنول شوزف کی تھی کہ میں سنی اتحاد کونسل کی طرف سے امیدوار نامزد ہوئی ہوں اور یہ نشستیں ہمیں دی جائیں، اس پر آج بھی کارروائی نہیں ہوئی، اس پر کوئی نوٹسسز نہیں ہوئے، نامزد ممبران کو عدالت بلا کر ان سے کوئی رائے نہیں لی گئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ سارے سوالات اب بھی موجود ہیں، مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے کہ تفصیلی فیصلے میں ان ججز کے بارے میں بھی انتہائی سخت لکھا گیا ہے جنہوں نے اس مقدمے میں اپنا اختلافی نوٹ لکھا ہے، عدالت میں سب ججز برابر ہوتے ہیں، سنیارٹی فیصلوں پر حاوی نہیں ہوتی، یہ کوئی چین آف کمانڈ نہیں ہے، یہ فورس نہیں، عدالت ہے، اختلاف ہی مذاکرے اور منطق کا حسن ہے۔

مزید پڑھیں:چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی ججز کی وضاحت پر اہم سوالات اٹھا دیے

تفصیلی فیصلہ آنے کے باوجود یہ مسئلہ ابھی بھی حل طلب ہے،  مخصوص نشستیں کس کو دینی ہیں یہ فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہی ہو گا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر قانون نے کہا کہ عدالت نے خود کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان خود ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کے پاس بھی بے شمار اختیارات ہیں، وہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے آرڈر پاس کر سکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جو فیصلہ دیا تھا وہ تمام فریقین کو سننے کے بعد قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد کیا تھا، یہ مقدمہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں داخل ہونا چاہیے تھا لیکن اس مقدمے کو پشاور ہائیکورٹ میں لے جایا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp