وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہےکہ صوبوں کے ساتھ نئے قومی مالیاتی معاہدے ہو گئے ہیں، ملک میں کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا، تمام صوبوں نے زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹیکس نہ دینے والوں پر ایسی پابندیاں لگائیں گے کہ وہ بہت سارے کام نہیں کرسکیں گے، وزیر خزانہ
منگل کو ایک ٹی وی انٹرویو میں وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے ملک میں معاشی استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی، ہمارا روپیہ مستحکم ہو گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر جو ایک ماہ کے لیے رہ گئے تھے وہ اب 2 ماہ کے لیے ہو گئے ، پالیسی ریٹ نیچے آ گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ صوبوں کے ساتھ نئے قومی مالیاتی معاہدے ہو گئے ہیں، اس کے لیے سب سے زیادہ تعاون وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کیا، اس کے بعد تمام صوبوں نے زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ حکومت نے ملک میں یکساں زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی معاہدوں کے تحت بعض اخراجات صوبوں کو منتقل ہو جائیں گے، گندم اور گنے کی امدادی قییمتیں مرحلہ وار ختم کی جائیں گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل ٹریڈ پر ٹیکس عائد ہوں گے انہوں نے خبر دار کیا ہے کہ حکومت نے ایسی پالیسی بنائی ہے کہ نان فائلرزاب گاڑی اورنہ ہی جائیداد خرید سکیں گے، نان فائلر بینک اکاؤنٹ بھی نہیں کھلوا سکیں گے۔
مزید پڑھیں:آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، صوبے ذمہ داری نبھائیں اور مہنگائی کنٹرول کریں، وزیرخزانہ
ہمیں امید ہے کہ ہماری معاشی اصلاحات اور کاؤشوں کے نتیجے میں کریڈٹ پالیسی ریٹ مزید نیچے آئے گا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کے اضافی کلائمیٹ فنڈ ملنے کا بھی امکان ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بعض اخراجات صوبوں کو منتقل ہوں گے، گندم اور گنے کی امدادی قیمتیں مرحلہ وار ختم کی جائیں گی، حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں ان شا اللہ پالیسی ریٹ مزید نیچے آئے گا کیوں کہ کریڈٹ ریٹنگ مستحکم ہوئی ہے، شرح سود بھی کم ہوتی جائے گی، ترسیلات زرمیں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبوں کے ساتھ نئے قومی مالیاتی معاہدے ہوئے تو صوبہ خیبر پختونخوا نے سب سے پہلے تعاون کیا، تمام وزرائے اعلیٰ نے نئے قومی مالیاتی معاہدے پر تعاون کیا لیکن وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے سب سے زیادہ تعاون کیا۔ دیکھنا ہے کہ صوبوں میں کیسے ٹیکس میں یکسانیت آ سکتی ہے۔ تمام صوبے زرعی انکم ٹیکس کا نفاذ کریں گے، حکومت نے یکساں زرعی انکم ٹکیس کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے۔ ایگریکلچرل انکم ٹیکس کے نفاذ کا طریقہ کار وضح کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا ٹیکس فائل کرنے کا کوئی نقصان بھی ہو سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے کچھ منصوبوں میں صوبے اپنے حصے کا بوجھ اٹھائیں گے۔ صوبوں کے ساتھ نئے مالیاتی معاہدے کے تحت صوبے بعض اخراجات کا بوجھ بھی خود اٹھائیں گے۔ اسٹیٹ بینک اوپن مارکیٹ آپریشن کررہا ہے اور یہ بہت ضروری بھی ہے۔
وزیرخزانہ نے مزید کہا کہ یکم جولائی 2024 سے بھرتی ہونے والے افراد پرکنٹریبیوٹری پنشن اسکیم کا اطلاق ہو گا۔ لوگوں کو یوٹیلٹی اسٹورز کے بجائے بے نظیرانکم اسپورٹس پروگرام ( بی آئی ایس پی ) کے ذریعے برائے راست سبسڈی دینی چاہیے۔
ٹیکسز کے نفاذ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہول سیلرز، ڈسٹری بیوٹرز، رئیل اسٹیٹ کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے، انڈر فائلرز اور صفر ٹکیس فائلرز کو ڈیٹا اور آڈٹ سے چیک کریں گے۔ اب لائف اسٹائل آڈٹ ہو گا، ستمبر میں 5 لاکھ سے زیادہ نیو فائلر آئے ہیں، مجموعی ٹیکس ریٹرنز کی تعداد بھی دوگنا ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نئی پالیسی کے تحت نان فائلرز گاڑیاں، پراپرٹی نہیں خرید سکیں گے اور نہ بینک اکاؤنٹس کھول سکیں گے، میوچل فنڈ میں سرمایہ کاری بھی نہیں کر سکیں گے، انڈر فائلرزاورصفرٹیکس فائلرزکوڈیٹا اورآڈٹ سے چیک کریں گے۔ ہمارے پاس لوگوں کے اثاثوں اورسورس آف انکم کا سارا ڈیٹا موجود ہے۔ سورس آف انکم اور اثاثے بھی چیک کیے جائیں گے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ کوئی اب جائیداد خریدتا ہے تواس سے ذرائع آمدن کا بھی سوال ہو گا، ابھی تک تاجردوست پالیسی کے ذریعے 70 ہزار سے زیادہ ریٹیلرزکورجسٹرڈ کیا گیا ہے۔ سسٹم میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ ٹیکسز کی مد میں 7 ہزارارب مزید جمع ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین سے کہہ رہے ہیں کہ ڈالر کے بجائے چینی روپے میں قرضے طویل مدت میں واپس لیں، اور آپ قرضے کو ری پروفائل کریں، چین کے ساتھ آئی پی پیز سے متعلق گفتگو شروع کر دی ہے، پاورسیکٹرزمیں کچھ جینکوز اور ڈسکوز کے بورڈز کو تبدیل کیا گیا ہے، کچھ ڈسکوز کو کہا ہے کہ پرائیویٹائزیشن کی طرف جائیں۔
پاکستانی روپیہ ان شا اللہ مستحکم ہو گا اور پالیسی ریٹ نومبرمیں مزید نیچے جائے گا۔ آئندہ سال تک پاکستان میں 5 جی لانے کی بات ہورہی ہے۔ آئی ٹی اور زراعت کے شعبے ہمارے ہاتھ میں ہیں ہم انہیں مزید بہتر کر سکتے ہیں۔ میکرواکنامک استحکام کے بعد ہم پائیدارگرؤتھ کی طرف جا رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں کمی لا رہے ہیں، مجھ سمیت پوری کابینہ تنخواہ نہیں لے رہی ہے۔