ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے کے جواب میں اسرائیل اور امریکا کی دھمکیوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی کشیدہ صورت حال پر نیویارک میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس شروع ہو گیا ہے۔
بدھ کو شروع ہونے والا اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس فرانس اور اسرائیل کی درخواست پر طلب کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں اسرائیل پر حملہ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کی شہادت کا جواب ہے، ایرانی پاسداران انقلاب
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی انتہائی خطرناک صورت حال اختیار کر چکی ہے، اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جس نے سیکیورٹی کونسل کی متعدد قراردادوں کو مسترد کیا ہے اور ان کی خلاف ورزی کی ہے۔
دُنیا کو لبنان میں الارمنگ صورتحال سے آگاہ کیا تھا، انتونیو گوتریس
انہوں نے کہا کہ میں نے سیکیورٹی کونسل کو لبنان کی الارمنگ صورت حال سے خبردار کیا تھا، اس کے بعد صورت حال بگڑتی گئی۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد کئی اجلاس ہوئے جس میں اسرائیل اور مسلح گروہوں کے درمیان جنگ بندی کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے لیکن اسرائیل نے سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
انتونیو گوتریس نے کہا کہ لبنان کی جغرافیائی سالمیت کا احترام کیا جانا چاہیے، یہ حیرت کی بات ہے کہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کی جغرافیائی سالمیت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس میں دراندازی کی جاتی ہے تو پھر اس سیکیورٹی کونسل کے چارٹر کا کیا مقصد رہ جاتا ہے؟
اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فورسز نے لبنان کے دارلحکومت بیروت پر میزائل اور فضائی حملے کیے اور اس کے انفراسٹرکچر کو تباہ کیا، اس پر فرانس اور امریکا سمیت متعدد ممالک نے فوری سیزفائر کا مطالبہ کیا تاکہ مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے نکالا جا سکے، اسرائیل نے اس پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے حزب اللہ کے بیروت میں ٹھکانے پر بمباری کر کے اس کے لیڈر کو قتل کر دیا۔
حزب اللہ نے بھی اسرائیلی افواج پر راکٹ حملے جاری رکھے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ اور لبنان میں جشن کا سماں
انہوں نے کہا کہ ایران کے اسرائیل پر میزائل حملوں سے ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے، ایران کے میزائل حملے کی بھی مذمت کرتے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری جنگ بندی کی جائے اور امن کے قیام کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی لبنان پر جارحیت کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں ایک نیا انسانی المیہ جنم لینے کو ہے، لاکھوں لوگ نقل مکانی کر کے شام اور دیگر علاقوں میں جا رہے ہیں، جن کے مدد کے لیے تمام ممالک کو آگے آنا چاہیے۔
اسرائیل کو جواب دینا ضروری ہو گیا تھا، ایران
ایران کے سفیر امیر سید ایروانی نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے خلاف میزائل حملے ’گزشتہ 2 ماہ کے دوران اسرائیل کی مسلسل دہشتگردانہ اور جارحانہ کارروائیوں کا متناسب جواب‘ تھے اور یہ حملے خطے میں طاقت کے توازن اور ڈیٹرنس کی بحالی کے لیے ضروری تھے‘۔
انہوں نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ اسرائیل کے خلاف یہ کارروائی اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت تہران کے اپنے دفاع کے بنیادی حق کے طور پر کی گئی ہے کیوں کہ گزشتہ مہینوں کے دوران ایران کی خودمختاری اورعلاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل نے ایران کے خلاف بار بار جارحیت کی ہے اور اس کا براہ راست جواب دیا گیا ہے۔
اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجتھا ہے
انہوں نے کہا کہ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، سفارتکاری بار بار ناکام رہی ہے کیونکہ اسرائیل تحمل کو خیر سگالی کے طور پرنہیں بلکہ فائدہ اٹھانے کی کمزوری کے طور پر دیکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ اسرائیل ’بے گناہ شہریوں اور سویلین انفراسٹرکچر کو جارحیت اور قتل عام کا جائز ہدف سمجھتا ہے، لیکن ایران نے جواب میں صرف اپنے دفاع کے لیے تیار کیے گئے میزائلوں کے ذریعے اسرائیلی حکومت کی فوجی اور سیکیورٹی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے‘۔
انہوں نے اسرائیل کی قابض حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ خطے کو ایک بڑی تباہی کے دہانے کی جانب دھکیل رہی ہے اور جنگ بندی کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی عائد
انہوں نے امریکی حکومت کی فوجی حمایت اور سیاسی پشت پناہی کے ذریعے اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنے اور سلامتی کونسل کو مؤثر فیصلہ سازی سے مفلوج کرنے کی مذمت کی اور کونسل پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف کارروائی کرے۔
سلامتی کونسل اسرائیل پر ایرانی حملوں کی یک زبان ہو کر مذمت کرے، امریکا
سیکیورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکا کی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں کا مقصد اسرائیل میں ہلاکتوں اور تباہی کا باعث بننا تھا۔
انہوں نے سلامتی کونسل سے فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ایران کے خلاف ایک آواز میں بولنا چاہیے اور اقوام متحدہ کے ایک اور رکن ملک کے خلاف بلا اشتعال حملے پر ایران کی مذمت کرنی چاہیے۔
انہوں نے پاسداران انقلاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے پاسداران انقلاب پر اس کے اقدامات کے سنگین نتائج مسلط کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وسیع معنوں میں ایران حماس کے عسکری ونگ کے لیے فنڈنگ، تربیت، صلاحیتوں اور حمایت کے ذریعے اسرائیل پر 7 اکتوبر کو ہونے والے حملوں میں بھی ملوث تھا۔
اس حملے کے بعد سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا تھا کہ ان کے ملک نے ایران کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اس صورت حال سے اس طرح فائدہ نہ اٹھائیں جس سے خطے کو وسیع تر جنگ کی طرف دھکیلنے کا خطرہ ہو۔
امریکی سفیر نے یمن میں حوثیوں، شام اور عراق کے گروہوں اور لبنان میں حزب اللہ سمیت خطے بھر میں مسلح گروہوں کی حوصلہ افزائی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاسداران انقلاب نے اس انتباہ کو واضح طور پر اور بار بار نظر انداز کیا۔
جنگ نہیں بلکہ امن ہی جرات مندانہ آپشن ہے، برطانیہ
برطانیہ کی سفیر باربرا ووڈورڈ نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے ’جنگ نہیں بلکہ امن ایک جرات مندانہ آپشن ہے‘۔
برطانوی سفیر نے کونسل کو بتایا کہ ان کی حکومت کی وزیرخارجہ نے ہر جگہ اور ہر فورم پر جنگ بندی پر زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف لبنان اور غزہ میں جنگ بندی ہی کی قرارداد 1701 ایک سیاسی منصوبے پر اتفاق کرنے کی گنجائش پیدا کرے گی، جو بے گھر اسرائیلی اور لبنانی شہریوں کو ان کے گھروں میں پائیدار واپسی کی اجازت دیتی ہے۔
انہوں نے اسرائیل پر 200 کے قریب بیلسٹک میزائل داغنے پر ’ ایرانی حکومت‘ کی مذمت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ’ایران اور خطے بھر میں اس کے اتحادیوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور تباہی کے دہانے سے نکل جانا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ ہم لبنان کو ایک اور غزہ بنتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے، انہوں نے مزید کہا کہ اب اٹھائے گئے اقدامات سے ایک پوری نسل متاثر ہوگی۔
سلامتی کونسل یک زبان ہو کر جنگ بندی کا مطالبہ کرے، فرانس
فرانس کے سفیر نکولس ڈی ریویئر، جن کے وفد نے آج کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا نے اسرائیل پر ایران کے حملوں کی مذمت کی اور تہران پر زور دیا کہ وہ ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرے جو مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔
دیگر خدشات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے اپنی زمینی آپریشن شروع کر کے لبنان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے، انہوں نے شہریوں پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا اور زور دے کر کہا کہ ’ہمیں جنگ بندی کی ضرورت ہے‘۔’مزید برآں قرارداد 1701 پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور لبنان میں بے گھر افراد کو گھر واپس جانے کے قابل ہونا چاہیے، فرانسیسی سفیر نے غزہ میں جنگ بندی اور 2 ریاستی حل پر بھی زور دیا۔
یہ بھی پڑھیں:مشرق وسطیٰ میں علاقائی جنگ کا آغاز، اب کیا ہوگا؟
فرانسیسی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سلامتی کونسل اتحاد کا مظاہرہ کرے اور ایک آواز میں بات کرے اور مطالبہ کرے کہ ہم خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے کام کریں گے اشتعال انگیزی کے لیے کام نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ اجلاس کے شروع ہونے سے قبل فرانس نے کہا تھا کہ وہ ایران کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں اضافی فوجی سازو سامان بھیج رہا ہے اور تہران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل داغے جانے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس چاہتا ہے۔
روس کا لبنان سے اسرائیلی انخلا کا مطالبہ
سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں روس کے مندوب ویسیلی نیبنزیا نے لبنان پر اسرائیل کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ’فوری طور پر طاقت کا استعمال بند کرے اور لبنان کی سرزمین سے اپنی فوجیں واپس بلائے‘۔
انہوں نے اسرائیل اور اس کے امریکا سمیت دیگر ساتھیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ ان دُنیا کے خدشات کو حل کرنے کے لیے صرف طاقت کے استعمال کا سہارا لے رہے ہیں۔
انہوں نے لبنان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہاکہ ’شہریوں کے قتل عام کو مزید کوئی بہانہ نہیں چلے گا‘، یہ قتل عام پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں ہے۔
قرارداد 1701 کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے لبنان میں اقوام متحدہ کی عبوری فورس یونیفیل کی حفاظت اور سلامتی کی ضمانت دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور یاد دلایا کہ ’بلیو ہیلمٹس‘ کی زندگی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والی کارروائی کو فوجی جرم سمجھا جانا چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حماس کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ اور اسرائیل کی مخالفت کرنے والی تحریکوں کے دیگر متعدد رہنماؤں کے قتل کے بعد ہی ایران اس محاذ آرائی میں ملوث ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مزید محاذ آرائی کو روکنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے سلامتی کونسل کی یکجہتی پر زور دیا اور کہا کہ کونسل کے 15 میں سے 14 ارکان بھی متحد ہوتے تو ’فریقین کو امن پر مجبور کرنے کے لیے بہت پہلے ضروری اقدامات کر چکے ہوتے اور اس طرح ہزاروں بے گناہ خواتین، بچوں اور بزرگوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔’
روسی سفیر نے کہا کہ اس تنازعے کے شعلے وسیع پیمانے پر پھیل رہے ہیں اور خطے میں اسرائیل کے زیادہ سے زیادہ ہمسایہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ اسرائیل کا یہ ایک وسیع اور خطرناک وہم ہے کہ اسرائیل اس بڑھتی ہوئی آگ میں خود کو محفوظ رکھنے کے قابل ہو جائے گا، انہوں نے تنازع کو روکنے کے لیے کونسل کے دیگر ارکان کو بھی کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اسرائیل لبنان کی خودمختاری اورعلاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کررہا ہے، چین
چین کے سفیر فو کانگ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ چین ایسے تمام اقدامات کا مخالف ہے جو بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور شہریوں کے خلاف تمام تشدد اور حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے تمام ریاستوں کی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چین اقوام متحدہ کے اس مؤقف سے متفق ہے کہ اگر کوئی بھی اسرائیلی لبنان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کرتا ہے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کی دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
دیگر مقررین کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جنگ چھڑنے کے دہانے پر ہے‘ اور تمام فریقوں، خاص طور پر اسرائیل پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرے جس سے صورتحال مزید بگڑ سکتی ہو۔ چین کے سفیر نے اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خلاف لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی بھی مذمت کی۔
1996 سے اسرائیلی قتل عام کی اس کونسل سے شکایت کررہے ہیں، کوئی شنوائی نہیں ہوتی، لبنان
لبنان کے ناظم الامور سید ہادی ہاشم نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کا خطہ ہر طرف سے جل رہا ہے۔
اسرائیلی حکومت اور اس کی کابینہ نے لبنان پر زمینی حملے کی منظوری دے دی ہے، جس کا پہلا آغاز گزشتہ رات ہوا، جو 8 اکتوبر سے وحشیانہ جارحیت کے 11 ماہ بعد اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قوانین اور تمام بین الاقوامی اصولوں اور انسانی اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے عین الدلب گاؤں میں ہونے والے حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل محدود سرجیکل فوجی کارروائیوں کے بارے میں جو کچھ بھی کہتا ہے وہ سچ نہیں ہے، جب 29 ستمبر کو اسرائیلی حملے میں ایک رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں درجنوں خواتین اور بچوں سمیت 71 افراد ایک اجتماعی قبر کے طور پر ملبے میں دب گئے۔
1996 اور 2006 میں اسرائیلی قتل عام کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ ’ہم کتنی بار اس کونسل میں آئے ہیں اور تباہ کن صورتحال کے بارے میں متنبہ کیا ہے؟‘ لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: مشرق وسطیٰ میں کشیدگی، اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا مطالبہ کردیا
انہوں نے لبنان اور اس کے دارالحکومت بیروت کے خلاف اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج اسرائیل کی طرف سے قتل و غارت گری، نقل مکانی اور تباہی کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے اسے برداشت اور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایران نے ہمارے شہریوں پر وحشیانہ حملہ کیا، اسرائیل
اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ منگل کو ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں کو ’سرد مہری‘ اور ‘غیر معمولی جارحیت’ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ان حملوں نے لاکھوں لوگوں کو بموں کی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے دارالحکومت پر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’لندن میں بلٹز کے بعد سے یہ مناظر نہیں دیکھے گئے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ہمارے معاشرے کے قلب پر حملہ کرنے کی دانستہ کوشش تھی، جس میں اسرائیل کے مقدس ترین مقامات، مساجد، یہودی عبادت گاہوں اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران کے لیے کوئی مقدس میدان نہیں ہے۔
اسرائیلی سفیر نے الزام لگایا کہ اسرائیل کو ہر روز سرحدوں پر دہشتگردی، ہمارے سروں پر میزائل اور گلیوں میں گولیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسرائیلی سفیر نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ ‘اس صورت حال کو سمجھیں جس میں اسرائیل رہنے پر مجبور ہے کیوں کہ ہم حملوں کی زد میں ہیں‘۔