سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک مخصوص طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے آرٹیکل63 اے کیس پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی، جس کی منظور ی نہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی نے دی نہ جنرل ہاؤس نے۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے عدالتی احکامات کی روشنی میں عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی تو تمام وقت پولیس اہلکار ملاقات میں موجود رہے، انہوں نے جب آج عدالت میں عمران خان کو ذاتی طور پر پیش ہونے کی اجازت طلب کی تو ان کی استدعا مسترد کر دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی وکلا کا آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس کے بائیکاٹ کا اعلان
لطیف کھوسہ کے مطابق علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ نظر ثانی کیس کا معاملہ آئینی ترمیم سے منسلک ہے اور یہ ہارس ٹریڈنگ کا راستہ کھول رہے ہیں اور چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے یہ ترمیم متعارف کرائی جارہی ہے، چیف جسٹس کی جانب سے اس درخواست کی سماعت مفادات کا ٹکراؤ ہے۔
یہ درخواست زائد المعیاد ہے، ہم اس عدالتی کارروائی کو تسلیم نہیں کریں گے، یہ ہارس ٹریڈنگ کا راستہ کھولے گی۔ ہم اس کو اون نہیں کرتے، سردار لطیف کھوسہ کی میڈیا سے گفتگو pic.twitter.com/ErRtvCqos5
— WE News (@WENewsPk) October 3, 2024
لطیف کھوسہ، جو پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ علی ظفر نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ عمران خان کے مطابق وہ مزید اس عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بن سکتے، کیونکہ یہ بینچ بھی غیر قانونی طور پر تشکیل دیا گیا ہے، اس کے بعد چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر کو عدالتی معاون بننے کی پیشکش کی۔
مزید پڑھیں: آرٹیکل 63 اے: بیرسٹر علی ظفر کی آج ہی عمران خان سے ملاقات کرائی جائے، چیف جسٹس کی ہدایت
لطیف کھوسہ نے مزید بتایا کہ علی ظفر نے عدالتی معاون بننے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جس کی سپریم کورٹ بار کے صدر اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے بھی اعتراض نہیں کیا، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ ان کی جماعت اس عدالتی کارروائی کو تسلیم نہیں کرے گی کیونکہ یہ ہارس ٹریڈنگ کا راستہ کھولے گی، جسے وہ نہیں اپنا سکتے۔