مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے، جس میں 26 ویں آئینی ترمیم پر سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پر گفتگو کی گئی ہے۔
اتوار کو ہونے والے اس ٹیلیفونک رابطے میں بلاول بھٹو زرداری نے میاں محمد نواز شریف کو جمعیت علمائے اسلام سے آئینی ترمیم پر ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا۔
اسے سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس ڈاٹ کام‘ پر اپنی ایک پوسٹ میں بلاول بھٹو زرداری نے لکھا کہ ہماری تاریخ ان لوگوں کے لیے ناگوار ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کا آغاز کرکٹ ورلڈ کپ سے ہوتا ہے۔
Who was Justice Dorab Patel and why did he also want a federal constitutional court? His experience proved Pakistan needed it. 1/6 pic.twitter.com/xfsQ2SoHGs
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) October 13, 2024
بلال بھٹو زرداری نے لکھا کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس دراب پٹیل کے تجربے نے ثابت کیا کہ وفاقی آئینی عدالت پاکستان کی ضرورت تھی، جسٹس پٹیل نے آئینی عدالت کا خیال اپنے ساتھیوں، عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان سے بھی شیئر کیا اور وہ ان سے متفق بھی تھے۔
Our history is inconvenient for those who think Pakistani politics begins with the cricket World Cup and culminates in Imran/General Faiz Inqalab. Our commitment to our, constitutional evolution, manifesto and Charter of Democracy remains consistent despite the changing faces of…
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) October 13, 2024
بلاول بھٹو زرداری نے مزید لکھا کہ ہماری تاریخ ان لوگوں کے لیے ناگوار ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کا عروج عمران خان اور جنرل فیض کے انقلاب پر ہوتا ہے۔
بلاول بھٹو نے مزید لکھا کہ آئینی ارتقا، منشور اور میثاق جمہوریت کے لیے ہمارا عزم ہمیشہ یکساں رہا ہے، چاہے وزیراعظم، ججز اور اسٹیبلشمنٹ کے چہرے بدلتے رہیں ہیں، ہم کبھی بھی آمروں اور ججز کی طرح من مانی سے قانون سازی یا آئین میں ترمیم نہیں کرتے، ہم اپنی نسلوں کے لیے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے ایکس پر لکھا کہ ہمیں 18ویں ترمیم میں 1973 کے آئین کو بحال کرنے کے لیے 30 سال لگے، ہمیں 19ویں ترمیم اور پی سی او چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سیاست کے عدالتی فیصلوں کے نقصانات کو دور کرنے کے لیے تقریباً 2 دہائیاں لگ چکی ہیں۔
We never legislate or amend the constitution at a whim like dictators and judges have so easily done. We work towards our goals for generations. It took us 30 years to restore what we could of 1973 constitution in the 18th amendment. It has taken us almost 2 decades to get to the…
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) October 13, 2024
چیئرمین پیپلزپارٹی نے اپنی ایکس پوسٹ میں مزید لکھا کہ 26ویں ترمیم جلدی میں نہیں کی جا رہی ہے، ہم سمجھتے ہیں یہ ترمیم کافی عرصہ پہلے ہی ہو جانی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس دراب پٹیل ان 4 معزز ججوں میں شامل تھے جنہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بری کیا، جسٹس دراب پٹیل نے بھٹو شہید کے عدالتی قتل کا حصہ بننے سے بھی انکار کیا تھا۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے شریک بانی رہنے والے جسٹس دراب پٹیل کا ماننا تھا کہ قائد عوام کو سزا دینے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
PPP’s initial proposal in order to complete the Charter of Democracy’s unfinished judicial reforms agenda. We propose the creation of a Federal Constitutional Court, with equal representation of all federating units. The court would address all issues pertaining to fundamental… pic.twitter.com/NID5Zy9JvK
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) October 12, 2024
ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے بانی رکن رہنے والے جسٹس دراب پٹیل بھٹو شہید کیس میں گواہ کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے تھے ۔ دراب پٹیل نے یہ بھی کہا کہ بھٹو شہید کا ہائی کورٹ میں ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلانا ایک غلطی تھی، جسے تسلیم کرنے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو 45 سال لگے ۔
انہوں نے مزید لکھا کہ جسٹس پٹیل نے 1981 میں سابق مارشالا ایڈمنسٹریٹر ضیا الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا اور مستعفی ہونا پسند کیا، سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس دراب پٹیل اگر ایسا نہ کرتے تو یقیناً وہ پاکستان کے چیف جسٹس بھی بن جاتے۔