اسرائیلی فوج نے شام پر توپ خانے سے حملے کیے ہیں۔ تاہم ان حملوں میں کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے مطابق اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے شامی مسلح افواج کے فورتھ ڈویژن کا ایک ملٹری کمپاؤنڈ، ملٹری ریڈار سسٹم اور شامی مسلح افواج کے زیر استعمال توپ خانے کو نشانہ بنایا ہے۔
مشرقِ وسطٰی میں غزہ، لبنان، مقبوضہ مشرقی یروشلم اور مقبوضہ مغربی کنارے سمیت متعدد محاذوں پر تشدد میں اضافہ کے پس منظر میں اس حالیہ اسرائیلی حملوں کے بارے میں شامی حکام کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
اتوار کی صبح شام کی سرزمین سے اسرائیل کی سرزمین پر راکٹوں کے دو راؤنڈ داغے جانے کے بعد ردِ عمل کے طور پر اسرائیلی فوج نے شام پر راکٹ لانچروں کے خلاف توپ خانے اور ایک ڈرون سے حملہ کرنے کا دعوٰی کیا ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق شام سے پہلے حملہ میں فائر کیے گئے تین راکٹوں میں سے ایک اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کے میدان میں گرا جب کہ دوسرے حملہ میں مبینہ طور پر فائر کیے گئے تین راکٹوں نے شمالی اسرائیل میں سائرن بجائے تاہم جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
شامی میڈیا کے مطابق اسرائیلی بمباری سے دارالحکومت دمشق کے آس پاس دھماکے ہوئے ہیں۔
شامی وزارتِ دفاع نے کچھ اسرائیلی حملوں کو روکنے کا دعوٰی کیا ہے، تاہم اسرائیلی حملوں سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
لبنانی میڈیا کے مطابق شام سے اسرائیل پر راکٹ داغنے کی ذمہ داری فلسطینی اسلامی جہاد تحریک کے مسلح ونگ القدس بریگیڈز نے قبول کی ہے۔
شام کی جانب سے راکٹوں سے حملہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں کیا گیا ہے جب اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ کے احاطے پر چھاپے کے دوران رمضان میں جمع ہونے والے فلسطینی نمازیوں پر سٹن گرینیڈ اور ربڑ کی فولادی گولیاں برسائی تھیں۔
یہ چھاپے ایک ایسے وقت میں کیے گئے جب مذہبی جوش و خروش میں اضافہ ہو رہا تھا – رمضان المبارک یہودیوں کے پاس اوور اور مسیحی ایسٹر کی تقریبات کے ساتھ موافق تھا۔
حملوں کے پرتشدد مناظر نے رمضان المبارک کے مقدس روزے رکھنے والے فلسطینیوں کو مشتعل کیا اور لبنان اور غزہ کی پٹی میں مسلح گروہوں کو اسرائیل پر راکٹ داغنے پر اکسایا۔
اس کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ اور جنوبی لبنان میں متعدد مقامات پر بمباری کی جن کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ وہ فلسطینی گروپ حماس سے تعلق رکھتے تھے۔
اسرائیلی صحافی اور مصنف گیڈون لیوی کے مطابق اسرائیل اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان تناؤ ایک نازک موڑ پر ہے جہاں صورتحال انتہائی دھماکہ خیز ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی انتہائی قوم پرست حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سابقہ سالوں کے برعکس ہمیں ایک انتہائی بنیاد پرست حکومت کا سامنا ہے جس کے انتہائی بنیاد پرست عناصر ایسی کارروائی پر زور دے رہے ہیں جو تباہی میں بدل سکتی ہے۔
’مسجد اقصیٰ کے مناظر بربریت کے ایسے مناظر تھے جو حالیہ برسوں میں نہیں دیکھے گئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب ماچس کی ایک چھوٹی سی تیلی بھی پورے علاقے کو آگ لگا سکتی ہے۔ امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا، لیکن کوئی بھی یہ ضمانت نہیں دے سکتا کہ ایسا نہیں ہوگا۔‘
گیڈون لیوی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اسرائیل شام میں ایران سے منسلک گروہوں کے خلاف سینکڑوں حملے کر رہا ہے، بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں پر بمباری کر رہا ہے، بشمول حلب کی مرکزی تنصیب جو کہ شمالی شام میں آنے والے مہلک زلزلوں کے بعد سے امدادی سامان کی ترسیل کا راستہ تھا۔
’اسرائیل میں شام پر حالیہ حملوں کے بارے میں کوئی عوامی حمایت نہیں ہے اور اسرائیل میں اس ضمن میں کوئی معلومات نہیں ہے۔۔۔ایک بات واضح ہے کہ اسرائیل شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور ایران کے ساتھ آگ سے کھیل رہا ہے۔ شامی اور ایرانی کب تک یہ برداشت کریں گے؟‘
اس کشیدگی کے ماحول میں اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے فسح کی مدت کے لیے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کے لیے اسرائیل میں داخلے پر پابندی میں توسیع کرتے ہوئے حساس مذہبی تقریبات کے موقع پر یروشلم میں پولیس فورسز کو بڑھا دیا ہے۔