26ویں آئینی ترمیم کے بعد سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا؟

پیر 21 اکتوبر 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے ساتھ ہی پارلیمنٹ ایک برتری لیتی نظر آئی ہے۔ چیف جسٹس کی مدت ملازمت کا تعین ہوگیا۔ ان کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل ہوگیا۔ پارلیمانی کمیٹی کو اختیارات مل گئے۔ آئینی بنچ قائم ہوگیا۔ جج حضرات کی ترقی کارکردگی جائزے سے مشروط ہوگئی۔ عدالت کی حدود طے کردی گئی اور ایک معاملے پر نوٹس لے کر فیصلہ کسی اور معاملے کے ساتھ جوڑنے اور سنانے پر روک لگ گئی۔

اس ترمیم کی نوبت کیوں آئی تھیں؟ ہوا یہ تھا کہ کپتان کی باتوں پر مائی لارڈ مائی گارڈ کا ایسا جیا آیا کہ انہیں اس بھائی سے سچا پیار عشق وغیرہ ہوگیا تھا۔ جب اوپر بندہ ٹھیک ہو، ایک کروڑ نوکریاں ملیں گی، باہر سے لوگ کام کے لیے پاکستان آئیں گے، سارے پرانے کرپٹ ہیں اور باریاں لگائی ہوئی ہیں، ایسی ہوتی ہے جمہوریت، وہ تو پھر بھائی آیا اس نے معیشت ٹھیک کرنے کے لیے انڈے اور کٹے دینے کی بات کی، کشکول چھڑوا کر ٹوکرا اٹھوایا اور سر جی کو مانگنے بھیجا، خود جرمنی جاپان کی سرحدیں ملائیں تو آنکھیں کھلنی شروع ہوئیں۔

اب ذرا فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ 9 مئی ہوا، جنرل فیض حمید گرفتار ہوئے، کپتان اندر بیٹھا موج مار رہا ہے اور اس کے مداح باہر اتاولے ہورہے ہیں۔ دنیا یہ پوچھ رہی تھی کہ یہ آپ کی رٹ ہے؟ آپ کی کوئی سنتا ہے؟ آپ کے ساتھ ہم کام کیوں کریں؟ بلکہ بات ہی کیوں کریں؟ ابھی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) دھرنے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔

9 مئی کا ایک اینگل اور بھی ہے۔ میں کوشش کرے گا لیکن سمجھنا آپ کو خود ہے۔ ہم بطور ریاست کافی کارنامے کرتے آرہے ہیں۔ ایسے کارنامے جب کرتے ہیں تو دنیا ایک کڑوا گھونٹ بھرتی ہے، ٹھنڈا پانی پیتی ہے اور اگنور مارتی ہے۔ ایبٹ آباد واقعہ بطور ایک مثال لے لیں۔

ہمارا ایران اور شمالی کوریا نہیں بنایا جاتا۔ وجہ؟ بس اتنی ہے کہ ہم خود بھلے نہ جانتے ہوں کہ ہم کیا ہیں ہماری طاقت کیا ہے، ہم جس پلاٹ پر بیٹھے وہ کدھر ہے۔ ہماری فائدے پہنچانے کی صلاحیت تو ہے ہی، ہم کئی خطوں کو جوڑ سکتے ہیں۔ ہماری نقصان پہنچانے کی صلاحیت بطور فرد اور ریاست بھی بے مثال ہے۔

جب 9 مئی ہوتا ہے، تو اہم دارالحکومتوں میں جس کو پریشان ہونا چاہیے ہوجاتا ہے۔ بطور ریاست کوئی پنگا کرنا اور بات ہے اور کسی فرد کے پاس ریاست کو اوپر نیچے کرنے کی صلاحیت رکھنا مختلف بات ہے۔ اس لیے جنرل فیض حمید اندر ہیں اور کپتان بھی۔ سزا کو چھوڑیں ان کا ٹرائل کرنا اور ہوتے دکھائی دینا مجبوری ہے۔ اس میں عدلیہ کے اندر ایک گروپ صورتحال سمجھے بغیر رکاوٹ بنا ہوا تھا۔

پاکستان میں ججوں کا احتساب ہی نہیں ہوتا۔ جرنیلوں کا ہوجاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو سزا ہوئی ہے۔ جنرل فیض حمید سابق ڈی جی آئی ایس آئی اس وقت زیر حراست ہیں اور ان کا ٹرائل ہورہا ہے۔ یہ حالیہ تاریخ سے موجود مثالیں ہیں۔

ان ججوں کے کارنامے چیک کریں۔ ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی گئی، 2 کو نااہل کیا گیا۔ حکومتیں گرانے میں کردار ادا کیا گیا، آئین کو ری رائٹ کرتے رہے، اسٹیل مل، ریکوڈک سمیت ایسے ایسے فیصلے کیے جن پر اربوں ڈالر کے جرمانے لگے اور نقصان ہوا۔ کسی سے کچھ پوچھا نہیں گیا۔ ایگزیکٹیو کے اختیارات میں مداخلت بے دریغ ہوتی رہی۔

اس آئینی ترمیم کی ڈرائیونگ فورس بلاول بھٹو ہیں۔ انہوں نے بزرگ سیاستدان (نوازشریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان) کو راضی کیا کہ پارلیمنٹ کو سپریم بنانے کے لیے آئینی ترمیم پر اتفاق کریں۔

پاکستان کی آئندہ سیاسی قیادت کے لیے مشکلات کو ختم کریں۔ یہاں سے اصل سیاسی کھیل کا آغاز ہوا۔ پی ٹی آئی پر پنڈی کے غصے کو یاد کریں۔ خود کپتان کا سیاسی قیادت کو رنگ برنگ طریقوں سے مخاطب کرنا یاد کریں۔

ادھر سیاست جو امکانات کا کھیل ہے، راستے بنانے دوسروں کو منانے ساتھ چلانے کا فن ہے وہ سامنے آیا۔ موجودہ آئینی ترمیم میں پی ٹی آئی کو پنڈی کے غصے سے صاف بچا لیا گیا ہے۔ جب جب مشکل پیش آئی بظاہر 2 بڑے کھلاڑیوں نے پیچھے رہ کر مولانا کو آگے کردیا کہ بندے نہیں پورے اور ہم نہیں مانتے۔ پی ٹی آئی نے ترمیم پیش ہوتے وقت اور بعد میں بھی مولانا فضل الرحمان کی تعریف کی ہے۔ یہ پہلے کیا کہا کرتے تھے وہ یاد کرلیں۔

سیاستدانوں نے آئین کو کلین ہی رکھا ہے۔ اس میں ایسی چھاپ نہیں لگنے دی جس سے لگے کہ کوئی ادارہ پارلیمنٹ سے زیادہ طاقتور ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے اس سب میں ایک بڑا سبق ہے کہ درجن سیٹوں کے ساتھ مولانا نے سیاسی کمالات دکھائے ہیں۔ پی ٹی آئی بہت مقبولیت اور 8 گنا زیادہ سیاسی طاقت کے ساتھ نہیں دکھا سکی۔

پاکستان میں سرمایہ کاری معاہدوں کے لیے جو بات چیت ہوتی ہے اس میں ایک شرط بار بار سامنے آتی ہے کہ ثالثی فیصلوں کے لیے ثالثی عدالت پاکستانی نہیں ہوگی۔ آئینی ترمیم کے بعد حکومت اور نظام چلنا ہے۔ یہ پیغام ہر طرف گیا ہے۔ اب لانگ ٹرم معاہدوں کے لیے ماحول بن جائے گا۔ ایک میسج پی ٹی آئی کے لیے بھی ہے۔

کمزور دکھائی دیتے سیاستدانوں نے، پی ٹی آئی کو اس غصے سے بچا لیا ہے جو ابتدائی مسودے کی صورت ظاہر ہونا تھا۔ کپتان کو بھی چاہیے کہ اب وہ مذاکرات کے لیے اپنی برادری سیاستدانوں کی طرف رجوع کرے۔ بہت راستے نکل آئیں گے۔ احتجاج کے لیے ہمدرد ججوں سے حاصل حمایت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ سیاست کی جیت ہوئی ہے۔ آئینی ترمیم پر خوش ہونا بنتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp