حکومت کی جانب سے لڑکیوں کو تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کے دعوے تو کیے جاتے ہیں تاہم ان کے لیے مختص تعلیمی اداروں بالخصوص اسکولوں میں فراہم کردہ سہولیات کا آڈٹ ایک تلخ حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔
حکومتی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کے مطابق ملک بھر میں لڑکیوں کے 17 فیصد فیصد اسکولوں میں پینے کا پانی دستیاب نہیں جبکہ 22 فیصد بجلی کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں تعلیم کی تنزلی تیزی سے جاری، غیر فعال اسکول ساڑھے 3 ہزار سے متجاوز
انسٹیٹیوٹ کے اعدادوشمار کے مطابق لڑکیوں کے 14 فیصد اسکولوں میں واش رومز یا ٹوائلٹ کی سہولت بھی نہیں ہے جبکہ 4 فیصد اسکولوں کی عمارت ہی نہیں ہے۔ ’ 1389 اسکولوں کو عارضی ڈھانچوں میں تعمیر کیا گیا ہے، 58 فیصد لڑکیوں کے اسکولوں میں سائنس کے مضامین کی لیباریٹریز بھی نہیں ہیں۔‘
رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمان نے سوال اٹھایا تھا کہ لڑکیوں کو تعلیم کے حصول میں کن مشکلات کا سامنا ہے، کیا اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت بھی پاکستان کی 12 کروڑ 90 لاکھ لڑکیاں اسکولوں سے باہر ہیں؟
مزید پڑھیں: کراچی کا وہ اسکول جہاں بچے تعلیم کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی کماتے ہیں
وزارت تعلیم کی جانب سے اسمبلی اجلاس میں پیش کیے گئے جواب میں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں لڑکیوں کے اسکول میں داخلے کا تناسب کئی گنا زیادہ ہے، جہاں ایک لاکھ 34 ہزار لڑکیوں نے اسکولوں میں داخلہ لیا دوسری جانب 93 ہزار لڑکوں نے اسکولوں میں رجسٹریشن کروائی۔
اسلام آباد میں لڑکیوں کے اسکولوں کی تعداد 248 جبکہ لڑکوں کے اسکولوں کی تعداد 184 ہے، اسلام آباد میں طالبات کے لیے مفت سفری سہولت ’پنک بس سروس‘ کے آغاز کیا گیا ہے، اس کے علاوہ لڑکیوں کے اسکولوں میں 226 کمپیوٹر لیب بھی قائم کی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں:کراچی کا سرکاری اسکول جہاں آکر تعلیم کے سوا ہر خیال ذہن میں آسکتا ہے
لڑکیوں کے بڑی تعداد میں اسکولوں سے باہر رہنے کے معاملہ پر وزارت تعلیم نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملک بھر میں 2 کروڑ 60 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جن میں لڑکیوں کی تعداد ایک کروڑ 37 لاکھ ہے، پرائمری سے سیکنڈری لیول کی 41 فیصد لڑکیاں جبکہ 34.9 فیصد لڑکے اسکول نہیں جاتے۔
فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے مطابق سال 2023-24 کے دوران اسلام آباد کے 17 ہزار بچوں کو اسکولوں میں داخل کرایا گیا ہے، سال 2022-23 میں اسکولوں میں داخل لڑکیوں کی تعداد 10 فیصد بڑھ کر 2 کروڑ 10 لاکھ ہو گئی ہے جبکہ سال 2018 میں یہ تعداد ایک کروڑ 90 لاکھ تھی۔