بلو چستان میں ہر گزرتے سال کے ساتھ تعلیم کا شعبہ تنزلی کی جانب تیزی سے گامزن ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری اسکولوں کے دروازے شاگردوں پر بند ہونے کا سلسلہ موجودہ دور حکومت میں بھی رک نہیں سکا اور بچے کھچے اسکولوں کی اکثریت بنیادی سہولتوں سے ہی عاری ہے جبکہ 70 فیصد خواتین تعلیمی زیور سے محروم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کی انتھک اسکول ٹیچر، جو روزانہ کئی کلومیٹر سفر طے کر کے پڑھانے جاتی ہیں
محکمہ تعلیم بلوچستان کے اعدادوشمار کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں بلوچستان کے مزید 542 اسکولوں میں تالے لگ گئے جس کے بعد صوبے کے غیر فعال اسکولوں کی تعداد بڑھ کر 3694 ہوگئی۔
پشین سب سے زیادہ متاثر
اعدادوشمار کے مطابق ضلع پشین میں سب سے زیا دہ تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں جن کی تعداد 254 ہے جبکہ اس کے بعد خضدار کا نمبر آتا ہے جہاں 251 اسکول غیر فعال ہیں۔
قلعہ سیف اللہ میں 179، بار کھان 174، آوران 161، لورالائی 157، نصیر آباد 153، صوبائی دارالخلافے کوئٹہ 152، ژوب 136اور ڈیرہ بگٹی میں 13 اسکول غیر فعال ہیں۔
تعلیمی ادارے مسلسل بند ہونے کی بنیادی وجہ
ان تعلیمی اداروں کے غیر فعال ہو نے کی ایک بڑی وجہ اساتذہ کی کمی بتائی جاتی ہے۔ اس وقت صوبے میں 16 ہزار اساتذہ کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے اسکولز بند ہو تے جا رہے ہیں۔
محکمہ تعلیم کے مطابق صوبے میں سرکاری اسکولوں کی مجموعی تعداد 15096 ہے جن میں تعینات اساتذہ کی تعداد 48841 ہے۔ صوبے میں 9496 خالی اسامیوں پر بھرتی کا عمل جاری ہے جبکہ 16ہزار اساتذہ کی مزید ضرورت ہے۔
خواتین میں تعلیم کی شرح
بلوچستان میں تعلیمی نظام کی تنزلی تشویشناک حد تک پہنچ چکی ہے۔
خواتین صوبے کی آبادی کا تقریباً نصف حصہ بنتی ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے 72.6 فیصد تعلیم کے زیور سے محروم ہیں جبکہ گرلز اسکولوں کی شرح 33 فیصد ہے۔
باقی ماندہ اسکولوں کی حالت زار
محکمہ تعلیم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بلو چستان کے 10 ہزار سے زائد تعلیمی اداروں میں پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات تک موجود نہیں ہیں۔
کل اسکولوں میں 48 فیصد ایسے ہیں جو چہار دیواری سے محروم ہیں جبکہ 43 فیصد اسکولوں میں بیت الخلا کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔
مزید پڑھیے: ہم اسکول پر اسکول کھولتے گئے مگر تعلیم کے لیے کچھ نہیں کیا، راحیلہ درانی
ماہر ین تعلیم کا مؤقف ہے کہ بلو چستان ہمیشہ سے تعلیمی اعتبار سے دیگر صوبوں کی نسبت پسماندہ رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام میں تاخیر ہے۔
مثال کے طور پر پنجاب یونیورسٹی سنہ 1882 میں قائم ہوئی، کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی سنہ 1921 میں بنی، اسلامیہ کالج پشاور کی بنیاد سنہ 1913 میں رکھی گئی جبکہ صوبے کی پہلی جامعہ یعنی بلوچستان یونیورسٹی سنہ 1970 میں وجود میں آئی۔ اس طرح یہ صوبہ پنجاب سے 88 سال، خیبر پختونخوا سے 57 سال اور سندھ سے 49 سال پیچھے ہے۔
مزید پڑھیں: محکمہ تعلیم کالجز بلوچستان میں بڑے پیمانے پر بوگس بھرتیاں، معاملہ کیا ہے؟
ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ بلوچستان میں امن وامان کے لیے زیا دہ جبکہ تعلیم جیسے اہم شعبے کے لیے کم بجٹ رکھا جا تا ہے جس کی وجہ سے نہ تو پرانے تعلیمی اداروں کو بہتر کیا جا سکتا اور نہ ہی نئے اداروں کا قیام ممکن ہو پاتا ہے۔
صوبے میں صورتحال یہ ہے کہ اکثر اوقات جامعات میں اساتذہ اور دیگر عملے کی تنخواہیں دینے تک کے لیے رقم دستیاب نہیں ہوتی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں صوبے میں تعلیمی بہتری آنا ممکن نہیں گو وزرا اور دیگر حکومتی نمائندے سب اچھا ہے کا راگ الاپتے نہیں تھکتے لیکن حقیقت اس کے برعکس اور انتہائی تلخ ہے۔