کینیڈا کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کینیڈا میں سکھوں کے خلاف پرتشدد مہم اور انٹیلی جنس آپریشن کا حکم دیا تھا۔
امریکی میڈیا کے مطابق، کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ موریسن نے منگل کو قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کے سامنے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کے بتانے پر ہی ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ نے امیت شاہ سے متعلق خبر شائع کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کینیڈا اور انڈیا کے سفارتی تنازع میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا نام کیوں آیا؟
کینیڈین نائب وزیر خارجہ نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ صحافی نے مجھے کال کرکے پوچھا کی کہ کیا یہ وہی شخص (امیت شاہ) ہے جس پر میں نے امیت شاہ کے نام کی تصدیق کی تھی۔ تاہم ڈیوڈ موریسن نے کمیٹی کو اس بارے میں نہیں بتایا کہ کینیڈا کو امیت شاہ کے سکھوں کے خلاف آپریشن سے متعلق کیسے علم ہوا اور نہ ہی اوٹاوا میں بھارتی سفارتخانے نے اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کا تاحال کوئی جواب دیا ہے۔
خیال رہے کہ 14 اکتوبر کو کینیڈین حکومت نے کینیڈا میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر سنجے کمار ورما اور دیگر 5 بھارتی سفارتکاروں اور عہدیداران کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے جواب میں بھارت نے بھی کینیڈا کے قائم مقام ہائی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سمیت 6 عہدیداران کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی سفارتکار کینیڈا میں مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں،کینیڈین وزیرخارجہ
اسی روز کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک بیان میں کہا تھا کہ رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق ان کے پاس واضح اور ٹھوس شواہد ہیں کہ بھارتی حکومت کے ایجنٹ کینیڈا کی سیکیورٹی کو خطرات سے دوچار کرنیوالی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی خبر میں کیا دعویٰ کیا گیا؟
اگلے روز ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ میں پورے معاملے سے متعلق ایک خبر شائع ہوئی تھی جس کے مطابق، کینیڈین حکام نے کہا تھا کہ جن بھارتی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہےان کی بات چیت اور پیغامات میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایک سینیئر آئی اےایس افسر کا تذکرہ ہے، جنہوں نے کینیڈا اور امریکا میں خالصتان کے حامی سکھوں کے قاتلانہ حملوں کی اجازت دی تھی۔
بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کو بھی اس ضمن میں اس وقت آگاہ کیا گیا تھا، جب انہوں نے 12 اکتوبر کو سنگاپور میں کینیڈا کی قومی سلامتی کی مشیر سے ملاقات کی تھی، جس میں کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ موریسن اور رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کے اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا بھارت سے کینیڈا کے الزامات کو سنجیدگی سے لینے کا مطالبہ
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ یا را کے افسر کا نام جس سیاق و سباق میں لیا جارہا ہے، وہ واضح نہیں ہے، بظاہر یہی نظر آتا ہے کینیڈین تفتیشی اہلکار بھارتی سفارت کاروں سے ان ناموں کے بارے میں پوچھ گچھ کرنا چاہتے تھے، جنہیں فون کال یا پیغامات میں انٹرسیپٹ کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق کینیڈا کی خواہش تھی کہ بھارت اپنے سفارتکاروں کو حاصل استثنیٰ ختم کردے تاکہ ان سے پوچھ گچھ یقینی بنائی جاسکے تاہم بھارتی حکومت نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا، جس کے بعد کینیڈا نے بھارتی ہائی کمشنر سمیت 6 سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔
یہ بھی پرھیں: کینیڈا میں کینیڈین شہری کا قتل، انڈیا نے بڑی غلطی کردی، جسٹن ٹروڈو
واشنگٹن پوسٹ میں خبر شائع ہونے کے بعد بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا نام جڑنے سے معاملہ مزید سنگین ہوگیا تھا اور اب کینیڈین نائب وزیر خارجہ کے بیان کے بعد اس معاملے میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے دعوؤں کو مزید تقویت ملی ہے۔ اس حوالے سے کینڈین حکومت متعدد بار کہہ چکی ہے کہ انہوں نے تمام ثبوت بھارتی حکومت کو فراہم کردیے ہیں۔ دوسری جانب، بھارتی حکومت بھی کئی مرتبہ کینیڈین حکومت کے دعوؤں کی تردید کرچکی ہے۔
یاد رہے کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے معاملے پر رواں برس کینیڈا نے بھارت سے اپنے 40 سفارتکاروں کو واپس بلوا لیا تھا۔ ان حالات کے پیش نظر امریکا کی جانب سے بھی بھارت کو سکھ رہنماؤں کے قتل پر سخت ردعمل کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر دہشت گردی کے فروغ میں ملوث مودی سرکار بری طرح بے نقاب ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجار سے متعلق دستاویزی فلم سے خوفزدہ
واضح رہے کہ 45 سالہ ہردیپ سنگھ نجر کو جون 2023 میں کینیڈا کے علاقے وینکوور کے مضافاتی علاقے میں نقاب پوش بندوق برداروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، جس کے ردعمل میں 18 ستمبر 2023 کو کینیڈا نے بھارتی سفیر پون کمار کو ملک بدر کردیا تھا، جس کے جواب میں بھارتی حکومت نے بھی کینیڈین سفیر کو ملک چھوڑنے کے احکامات دیے تھے۔