14 مارچ 1971 نشتر پارک میں بھٹو نے ایک تاریخی اعلان کیا کہ مشرقی پاکستان میں اقتدار عوامی لیگ کو اور مغربی پاکستان میں اقتدار پیپلز پارٹی کو سونپ دیا جائے۔ بھٹو کا مقصد کیا تھا اس سے قطع نظر ،اگلے دن ملک کے تمام بڑے اخباروں نے ادھر تم ادھر ہم کی سرخی شائع کی۔ جس سے یہ بات ثابت ہو رہی تھی کہ بھٹو نے پاکستان کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کا فارمولہ پیش کیا ہے ۔
بات یہاں تک ختم نہ ہوئی ،اگلے ہی دن جب بھٹو نے اس بیان کی وضاحت میں پریس کانفرنس کی تو اس میں یہ کہا کہ مشرقی اور مغربی پاکستا ن میں جغرافیائی طور پر اتنا فاصلہ ہے کہ ہمیں اکثریت کی حکمرانی کا اصول قبول نہیں۔ تاریخی طور پر یہ پہلا غیر جمہوری رویہ تھا جس کا اعلان کسی سویلین رہنما کی طرف سے کیا گیا۔
پاکستان بننے سے قبل مسلم لیگ جس بیانیے اور سوچ کو لے کر چل رہی تھی گو کہ وہ سوچ اور بیانیہ بلیک اینڈ وائٹ فکر کا عکاس تھا مگر وقت کی ضرورت بھی یہی تھی ہے کہ عوام کو جذباتی سطح پر جتنا ہو سکے متحرک کیا جائے تا کہ اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کر کے حکومت برطانیہ اور کانگریس پر دباؤ بڑھایا جا سکے ۔
یہ طریقہ کار پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے تک وقت کی ضرورت بھی تھا اور سیاسی حوالے سے مسلم لیگ کے لیے کارآمد بھی۔ یہ رویہ صرف مسلم لیگ کا نہیں تھا بلکہ کانگریس بھی انہیں چالوں کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔ مگر تقسیم ہند کے بعد کانگریس نے فوراً اپنا آئین بنا کر اپنے ملک کی سیاست اور سماج کو جمہوری بنیادوں پر ڈھالنے کا آغاز کیا تھا ۔ جس کے فوائد انڈیا اب سمیٹ رہا ہے ۔مگر ہم مخالف سمت چل پڑے۔
ہمارے ملک میں عسکری قیادت سے ہٹ کر ،سویلین قیادت کی تربیت میں بھی آمریت اور قانون شکنی شامل ہے۔ایسا کیوں ہے اس کا جواب ہمیں تاریخ سے ملے گا مگر ہم پچھتر سالوں سے تاریخ کو سننے کی ہمت نہیں جٹا پائے۔ آذادی کے بعد آٹھ سال تک یہ ملک بغیر کسی آئین کے چلتا رہا۔
ان آٹھ سالوں میں ہم نے سماجی اور سیاسی سطح پر جمہوریت کی بجائے انتہا پسندی اور قانون شکنی کا بیج بویا۔ سویلین رہنماؤں کو جہاں موقع ملا انہوں نے اپنا اقتدار مضبوط کرنے اور ملک کو چلانے کے لیے آمروں، وڈیروں، سرداروں اور جاگیرداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ بنائے ۔
جس کی وجہ سے سماجی سطح پر آمریت کو فروغ ملا ۔ دوسری طرف ملک میں سیاسی نظام کی پہلی اینٹ رکھنے والوں میں کوئی بھی سویلین جمہوری سوچ کا حامل رہنما نظر نہیں آتا ،اس کے بر عکس ستم ظریفی یہ تھی کہ وہی سردار ، جاگیردار اور وڈیرے ملک کا جمہوری نظام وضع کر رہے تھے جو اپنے حلقوں میں آمر اور انتہا پسند مشہور تھے۔ جس کے نیتجے میں ایسا سیاسی نظام وجود میں آیا جہاں قانون توڑنا سیاسی مہارت کہلایا ۔
پہلی دو دہائیوں میں ،ملک سیاسی اور سماجی حوالے سے انتہا پسندی اور قانون شکنی کو پہلے ہی قبول کر چکا تھا ،باقی دہشت گردی کی کسر سقوط ڈھاکہ کے بعد ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی نے پوری کر دی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی سماج کی موجودہ ساخت میں بڑا کردار ضیاالحق کا ہے مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے بھی حسب توفیق انتہا پسندی اور قانون شکنی کو پروموٹ کیا۔
ہماری تمام سیاسی جماعتوں کا مقصد پاکستانی سوسائٹی کی بہتر یا ملک کی ترقی نہیں بلکہ مخالف سیاسی جماعت کو ہر قانونی و غیر قانونی طریقے سے زیر کرنا ہوتا ہے۔ ملک میں جمہوری سوچ کا گلا گھونٹ کر سنجیدہ جمہوری لیڈر شپ کا خاتمہ تو اس دن ہو گیا تھا جب قرارداد مقاصدپیش کی گئی ۔
مگر اس روش کو عروج تب ملا جب افغان جہاد کے دوران مذہبی جماعتوں کی سرپرستی کی گئی اور انہیں اپنے عسکری گروپ بنانے کی اجازت دی گئی۔یہ تمام مذہبی جماعتیں بلیک اینڈ وائٹ سوچ کی حامل تھیں اور اسی دہائی میں یہی جماعتیں ملک کی سماجی اور سیاسی پرورش کر رہی تھیں۔
ضیا الحق کے بعد بے نظیر کو اقتدار ملا تو ملک کے طول و عرض میں سول سپرمیسی اور جمہو ریت کے نعرے بلند ہوئے ، مگر بے نظیر بھی پس پردہ انہیں راستوں پر چلتی رہی جن پر ضیا نے اپنی آمریت کی بنیاد رکھی تھی۔ پاکستان میں شدت پسند رہنماؤں کے ساتھ گٹھ جوڑ سے پوری سیاسی فضاآمر یت اور انتہا پسندی سے بھر گئی۔
افغانستان کے جہادیوں کو پاکستان میں لانے میں بھی انہیں کا کردار اہم رہا۔ بے نظیر فکری سطح پر کتنی جمہوریت پسند تھیں اس بات کا اندازہ ان ایک بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں وہ نہ صرف نواز شریف کے دور کو مشرف کے مارشل لا سے زیادہ برا کہتی ہیں بلکہ یہ بھی فرماتی ہیں کہ مشرف نواز شریف سے بہتر ڈکٹیٹر تھا۔
بے نظیر کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ نواز شریف اقتدار میں آئے۔ نواز شریف نے بے نظیر کے خلاف جو مخالفت کا محاز کھولے رکھا وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا گھٹیا ترین باب ہے۔ جس میں ایک عورت کو فحش اور بد کردار ثابت کر کے اقدار حاصل کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔
آج ن لیگ جس ووٹ کی عزت اور جمہویت کی بقا چاہتی وہ اس کے لیڈرز نوے کی دہائی میں خاک میں ملا چکے ہیں۔جمہوریت نظام سے پہلے ایک طرز فکر کا نام ہے اگر آپ کی سوچ جمہوری نہیں تو پھر آپ ایک جمہوری نظام کو چلانے کے لیے بھی نا اہل رہیں گے ۔
آصف علی زرداری پاکستانی سیاست میں جوڑ توڑ اور سیاسی چالوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ، یہ چالیں اور یہ جوڑ توڑ چاہے کتنے ہی غیر آئینی و غیر جمہوری کیوں نہ ہوں ۔ مگر ہمارے ہاں معاشرے کا مجموعی سیاسی شعور نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے یہاں آئین و قانون کو توڑنے والے اور جمہوریت کے پردے میں آمریت کو فروغ دینے والے لوگ ہی بڑے سیاسی کھلاڑی کہلاتے ہیں۔آصف زرداری کی زیر قیادت پیپلز پارٹی میں جمہوریت کی بجائے جاگیرداری اور وڈیرہ سسٹم کو جاری رکھا گیا۔
جس کی وجہ سے آصف زرداری بھی پارٹی سے باہر نکل کر ملکی سیاست اور پھر اس معاشرے کو جمہوری بنانے کی بجائے وراثتی اقتدار اور جاگیردارانہ طرز سیاست کو جواز فراہم کیا۔ زردار ی کی سیاست میں سے اٹھا رہویں ی ترمیم نکال کر پیچھے وہی بھٹو ، بے نظیر کی غیر جمہوری طرزسیاست بچتی ہے۔
جولائی 2018 کو ملکی سیاست میں ایک اور کھلاڑی کی انٹری ہوئی ،عمران خان نے اپنی سیاست کا ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد وزیراعظم تو بن گئے مگر ان کی سیاسی تربیت اور پرورش جس ماحول میں ہوئی وہ کسی بھی حوالے سے جمہوری نہیں کہلایا جا سکتا۔
سیاست میں آنے سے پہلے وہ کرکٹ کے کھلاڑی بھی رہ چکے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نفسیات میں بھی دو ہی خانے ہیں ٹھیک اور غلط ، یعنی عمران خان بھی وہی آمریت زدہ سوچ لے کر آیا جس کی روایت میں پیپلز پارٹی ، ن لیگ ا ور دوسری پاکستانی جماعتیں شامل ہیں۔
تحریک انصاف کے ا قتدار میں آنے کے بعد معاشرے میں جس طرح شدت پسندی اور گالم گلوچ کے کلچرکو رواج ملا ،گو کہ وہ ہماری ستر سالہ سیاسی تاریخ کا تسلسل ہے مگر اس کلچر میں یہ شدت پہلے کبھی نہ دیکھی گئی ۔گویا تحریک انصاف بھی اپنی اصل میں وہی آمرانہ سوچ کی حامل جماعت ہے جس طرح باقی سیاسی جماعتوں کا حال ہے۔
تحریک انصاف کی ایسی سیاست کے لیے مجھے زیادہ حوالے دینے کی ضرورت نہیں وہ آپ سوشل میڈیا پر تحریک انصا ف سوشل میڈیا سیل کے کسی بھی اکاؤنٹ کو دیکھ سکتے ہیں۔
دنیا میں جن ممالک نے ترقی کی انہوں نے سب سے پہلے اپنا سیاسی نظام جمہوری بنایا اس کے بعد معاشرے کو جمہوری بنیادوں پر استوار کیا ۔ ہمارے ہاں یہ دونوں کام ابھی تک توجہ طلب ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج پھر پاکستان کا آئین خطرے میں ہے ۔ آج بھی تمام سیاسی جماعتوں کا مقصد اپنے مفاد کا حصول ہے ،آئین کی فکر کسی کو نہیں۔آج بھی تمام سیاسی لیڈر آئین و قانون کو اپنے مفاد کی خاطر داؤ پر لگانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
جو کہتے ہیں کہ الیکشن نوے دن کے اندر ہوں ان کے اپنے مفاد ہیں اور جو کہتے ہیں الیکشن ابھی نہ ہوں ان کے بھی اپنے ہی مفاد ہیں ۔جس طرح ماضی میں کسی بھی سیاسی و عسکری حکمران نے سماجی سطح پر جمہوری اقتدار کو رائج کرنے کی کوشش نہیں کی آج بھی کسی لیڈر کا یہ درد سر ہی نہیں کہ ان کے غیر آئینی اقدام اور مفاد پرستی پر مبنی سیاست کا معاشرے پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔
شازار جیلانی ٹھیک کہتا ہے کہ ایک سابق وزیراعظم کو یہ منظور نہیں کہ عدلیہ نوے دن کے اندر لیکشن کروائے ،جبکہ دوسرے سابق وزیر اعظم کو عدلیہ کا نوے دن کے اندر الیکشن نہ کرانا منظور نہیں، پیچھے آپشن میرے عزیز ہم وطنو ! والوں کا رہتا ہے۔