سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق وزارتِ خزانہ کو پنجاب میں عام انتخابات کے لیے 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہم کرنے کا پابند کیا تھا مگر اسی تاریخ کو حکومت نے پارلیمنٹ میں الیکشن اخراجات بل منظوری کے لیے پیش کردیا جس کے بعد اب یہ اختیار پارلیمنٹ کو دے دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے انتخابات کے لیے 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو دینے ہیں یا نہیں۔
الیکشن التوا کیس میں سپریم کورٹ نے وزارتِ خزانہ کو پابند کیا تھا وہ الیکشن کمیشن کو مطلوبہ فنڈز 10 اپریل تک فراہم کردے جبکہ الیکشن کمیشن سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ اس سے متعلق 11 اپریل کو رپورٹ دے۔
الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کے لیے حکومت سے 21 ارب روپے کی فراہمی کا تقاضا کیا تھا تاہم ترجمان کے مطابق تاحال کمیشن کو فنڈز موصول نہیں ہوئے۔
وزیرِ خزانہ نے فنڈز سے متعلق مشکلات پر کابینہ کو بریفنگ دی ہے جبکہ پارلیمنٹ کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
فنڈز کا معاملہ پارلیمان جانے کے بعد کیا عدالت حکومت کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے؟
آئین کا آرٹیکل 69 پارلیمان کو عدالتی کارروائی سے استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔ جس کے مطابق پارلیمنٹ میں ہونے والی کسی بھی کارروائی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ سپریم کورٹ اس حوالے سے قاسم سوری رولنگ کیس میں پارلیمان کی کارروائی کو کالعدم قرار دے چکی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئیر قانون دان اکرام چوہدری نے وی نیوز کو بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے ساتھ آئین کا آرٹیکل 68 عدلیہ کو بھی استثنیٰ فراہم کرتا ہے جس کے مطابق پارلیمنٹ کے فلور پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز سے متعلق کوئی بحث نہیں کی جاسکتی۔
اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات میں پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی لیکن بنیادی طور پرپارلیمنٹ اور ایگزیکٹیو آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے رولز آئین میں ترمیم کی اجازت نہیں دیتے لیکن پارلیمان نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے‘۔
سابق اٹارنی جنرل شاہ خاور کے مطابق حکومت اس فیصلے کو نہیں مان رہی اور اسے متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن بالآخر یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے اور اس پر عمل کرنا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے مطابق تیاریاں شروع کردی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’فنڈز کا معاملہ اگر پارلیمان جاتا بھی ہے تو پارلیمان فیصلے کو کالعدم نہیں کرسکتی اس لیے فیصلہ تو اپنی جگہ موجود رہے گا تاہم حکومت کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کرے اور اس میں 3-4 سے فیصلے کے مطابق جو تنازع ہے اس کو بنیاد بناتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست کرے‘۔
فنڈز کی عدم فراہمی کی صورت میں عدالت کیا کارروائی کرسکتی ہے؟
سپریم کورٹ کے سینئیر قانون دان اکرام چوہدری کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں عدالت سیکرٹری خزانہ سے جواب طلب کرے گی اور مطمئن نہ ہونے کی صورت میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’عدالت کا یہ اختیار ہے کہ وہ سیکرٹری خزانہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجے اور اس پر ان کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ فنڈز کی فراہمی کی ہدایت کرے‘۔
کیا وفاقی حکومت کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے؟
اکرام چوہدری کے مطابق سپریم کورٹ ابتدائی مرحلے میں تو سیکرٹری خزانہ کو ہی نوٹس بھیجے گی اور اس نوٹس کے جواب کے مطابق ہی کارروائی کے بعد دیگر مرحلوں کا آغاز ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی طور پر سیکرٹری خزانہ ہی اس کی زد میں آئیں گے تاہم دوسرے مرحلے میں وزیرِ خزانہ اور وفاقی حکومت کے خلاف بھی سپریم کورٹ کارروائی عمل میں لاسکتی ہے۔
سابق اٹارنی جنرل شاہ خاور کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں سیکرٹری خزانہ کو فنڈز سے متعلق ہدایات دی ہیں اس لیے سیکرٹری خزانہ کو ہی ذاتی طور پر طلب کیا جائے گا اور اگر ضرورت پڑنے پر توہینِ عدالت کی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے اور اس کا دائرہ وسیع بھی کیا جا سکتا ہے۔