خواتین اور لڑکیوں کے لیے کوئی بھی عمر اور زندگی کا کوئی دور آسان نہیں ہوتا۔ زندگی کے ہر موڑ پر خواتین کو ایک نئے چیلینج اور مختلف ذمہ داریوں کا سامنا ہوتا ہے لیکن رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں خواتین کی ذمہ داریاں اور چیلنج مزید بڑھ جاتے ہیں۔ خاص طور پر ملازمت پیشہ خواتین کے لیے گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے پیشے کو برقرار رکھنا بھی کسی چیلینج سے کم نہیں ہے۔
اس طرح رمضان خواتین کے لیے سال کا وہ مہینہ ہوتا ہے جب وہ دن کے چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہوتی ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ اس کے بعد بھی انہیں چھٹی نہیں ملتی۔ عید کے تینوں دن انہیں شاندار دعوتوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے جس کے بعد بھی ان کی زندگی معمول پر آتے آتے کئی دن لگ ہیں۔
وی نیوز نے کچھ ایسی خواتین سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ رمضان خواتین کے لیے ایک بہت ہی مصروف مہنیہ ہوتا ہے۔ جس میں انہیں اپنے پیشے، پڑھائی ، عبادات کے ساتھ گھر کے کام بھی کرنے ہوتے ہیں۔
40 سالہ عائشہ ایک ماں، بہو اور بیوی ہونے کے ساتھ ایک اسکول ٹیچر بھی ہیں وہ ایک پرائیویٹ اسکول میں کیمیسٹری کی ٹیچرہیں۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے عائشہ عظیم نے بتایا کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی دن بھر کی روٹین مکمل بدل جاتی ہے اور رمضان کی روٹین کو مینیج کرنا تھوڑا مشکل ضرور ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ رمضان سے پہلے انہیں آرام اور اپنے عزیزوں سے بات کرنے کا کچھ وقت مل جایا کرتا ہے لیکن رمضان آتے ہی ان کے دن بھر کے معمولات میں بہت تبدیلی آجاتی ہے۔
عائشہ کا کہنا ہے کہ ’رمضان کے علاوہ تو آپ کو پتا ہے صبح اٹھو ناشتہ بناؤ اور بس اسکول چلےجاؤ اور پھر آپ کے پاس آرام کرنے کے لیے اچھا خاصا وقت بھی ہوتا ہے اور اتنی فرصت بھی کہ لوگوں سے بات چیت کرلی جائے۔ لیکن رمضان آتے ہی دن بھر کی پوری روٹین ہی بدل جاتی ہے اور اتنے سارے کاموں کے ساتھ پھر گھر والوں کے لیے بھی ٹائم نکالنا ہوتا ہے لیکن خیر چند روزوں کے بعد اس کی عادت بھی ہوجاتی ہے‘۔
عائشہ نے کہا کہ ’میں قرآن پاک کے ساتھ ترجمہ تفسیر بھی پڑھا رہی ہوں جس کے لیے سحری کے بعد دو گھنٹے مجھے خود مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ اتنے میں اسکول کا وقت ہوجاتا ہے اور وہاں سے آنے کے بعد تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ مل جاتا ہے جس میں نماز وغیرہ پڑھتی ہو اور پھر دورہ قرآن کا وقت ہو جاتا ہے جو تقریبا ایک سے تین بجے تک ہوتا ہے جس کے بعد میں ایک گھنٹہ آرام کرتی ہوں پھر عصر کی نماز کے فورا بعد افطاری کی تیاری شروع ہو جاتی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’صبح سحری کے وقت میرا بیٹا میری بہت مدد کرتا ہے میری کوشش ہوتی ہے کہ میں سحری کے لیے سب چیزیں رات میں تیار کر کے سو جاؤں تاکہ صبح پھر اتنا وقت نہ لگے اور جلدی سے سب وقت پر تیار ہوجائے۔ فتاری میں میرے سسرال والے کافی مدد کر دیتے ہیں‘۔
’افطاری میں جب تک بہت ساری چیزیں نہ ہوں مزہ نہیں آتا‘
عائشہ نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ مشترکہ خاندانی نظام میں رہتی ہیں جس کی وجہ سے افطاری بناتے ہوئے کافی آسانی ہو جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’افطار میں جب تک مختلف کھانے کی اشیا نہ ہوں تو مزہ نہیں آتا‘ جس کے لیے ان کی ساس اور نند ان کی کافی مدد کرتی ہیں تا کہ کسی ایک پر بوجھ نہ اس لیے ہم سب مل جل کر افطاری بناتے ہیں۔ مگر افطاری کی جو مین آئٹمز جیسے کہ کھانا وغیرہ وہ سب میں خود بناتی ہوں اور یہ مشکل تو ہوتا ہے مگر اتنا بھی نہیں کے انسان مینیج نہ کر سکے۔
عائشہ نے وی نیوز کے ایک سوال پر کہا کہ اگر آپ دماغی طور پر اس چیز کے لیے تیار ہوں کہ آپ کو رمضان میں ان سب چیلینجز کا سامنا کرنا پڑے گا تو شاید آپ کے لیے تب زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔
’’رمضان میں ہر لمحہ کیلکولیٹیڈ ہوتا ہے‘‘
عائشہ کا کہنا ہے کہ ’رمضان سے پہلے تو اچھا خاصا وقت ہوتا ہے ٹہلنے بھی چلے جاتے ہیں، سب سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں، ویسے بھی اتنا وقت ہوتا ہے کہ آرام کرنے کے باوجود بہت سا وقت بچ جائے جس میں انسان بہت سے کام کر رہا ہوتا ہے۔ رمضان آتے ہی یہ ساری روٹین یک دم سے بدل جاتی ہے، انسان کے پاس اپنے عزیزوں کے ساتھ لمبی لمبی کالز کرنے کا وقت نہیں بچتا اور بازاروں میں جانے کا وقت بھی نہیں ہوتا اور صورتحال کافی بدل جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ رمضان میں تو ہر لمحہ ہی کیلکولیٹیڈ ہوتا ہے اور اگر رمضان سے پہلے اپنا ’ہوم ورک‘ کر لیا جائے تو بہت آسانی ہو جاتی ہے۔ جیسے اگر آپ کو معلوم ہے کہ رمضان میں مجھے یہ سب مشکلات پیش آسکتی ہیں اور آپ کو اس کا حل بھی پتا ہو تو آپ کو زرا بھی مشکل نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ رمضان میں ہر چیز کو بیلینس لے کر چلنا سب سے اہم بات ہے اگر کسی بھی چیز میں تھوڑی سی بھی گڑ بڑ ہو جائے تو دن بھر کا سارا شیڈول ہی خراب ہو جاتا ہے۔ کسی بھی چیز کی زیادتی یا کمی سے باقی سب بھی متاثر ہو جاتا ہے‘۔
’دس بجے سے پہلے تمام کام ختم کرنا میرا ٹارگٹ ہوتا ہے‘
عائشہ کہتی ہیں کہ افطاری کے بعد نماز اور گھر کے دیگر کام نمٹانے کے بعد پھر تراویح کی تیاری شروع ہو جاتی ہے اور وہ مسجد جاتی ہیں اور اگر نہ بھی جا پائیں تو گھر پر ہی اہتمام کرلیتی ہیں۔ ’بس میری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز رہ نہ جائے چاہے وہ عبادت ہو یا کچھ بھی، اس سب سے فارغ ہو کر صبح سحری کی تیاری کرتی ہوں اور پوری کوشش ہوتی ہے کہ دس بجے سے پہلے یہ سب کام کر لیے جائیں تا کہ پھر میں سو جاؤں‘۔
انہوں نے کہا کہ رمضان کی روٹین کو مینیج کرنے کے لیے میں نے واٹس ایپ، فون کالز بہت کم کر دیے ہیں تا کہ دن بھر کے کام کے ساتھ آرام بھی کر سکوں، آرام کے بعد جو وقت ملتا ہے اس میں دورہ قرآن اور ازکار وغیرہ کر لیتی ہوں‘۔
’مسجد جا کر حوصلہ ملتا ہے‘
عائشہ کا کہنا ہے مسجد میں ایک اجتماعیت کا ماحول ہوتا ہے دن بھر کی ساری روٹین کے بعد سستی ہو جاتی ہے مگر جب ہم مسجد جاتے ہیں تو وہاں رونق ہوتی ہے ہرکوئی تراویح پڑھ رہا ہوتا ہے کوئی 8 پڑھ رہا ہوتا ہے تو کوئی 20 ، جس کی وجہ سے دن بھر کی تھکاوٹ کے باوجود بھی حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت زبردست چیز ہے کہ پاکستان میں تراویح کلچر کو فروغ مل رہا ہے اور خواتین کے لیے اس طرح کے انتظامات ہرعلاقے اور ہرمسجد میں ہونے چاہییں کیوں کہ مسجد میں قیام الیل بہتر طور پر ہو جاتا ہے۔
22 سالہ حرا علی بی ایس ایریا اسٹڈیزکی اسٹوڈینٹ ہیں۔ انہوں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہر بار رمضان کے آخری عشرے میں امتحانات شروع ہوجاتے ہیں اور امتحانات سے پہلے کلاسز بھی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہر روز یونیورسٹی جانا ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں پہلے پندرہ روزے تو ایسے ہی گزر جاتے ہیں تب بھی اتنا وقت نہیں ملتا کہ اپنے آرام کے لیے وقت نکالا جا سکے۔
’یونیورسٹی میں آکر رمضان زیادہ مشکل لگنے لگا ہے‘
حرا نے بتایا کہ یونیورسٹی سے پہلے تک انہیں رمضان اتنا مشکل نہیں لگتا تھا کیوں کے اسکول اور کالج تک رمضان آتے ہی چھٹیاں ہو جایا کرتی تھیں مگر جب سے یونیورسٹی میں آئی ہوں تب سے رمضان بہت ہی زیادہ مشکل لگنے لگا ہے۔
اس کی وجہ بتاتےہوئے حرا نے کہا کہ چوں کہ رمضان میں بھی یونیورسٹی کی کلاسز پہلے کی طرح ہی جاری رہتی ہیں اس لیے اس مبارک مہپینے کے حوالے سے تمام عبادات کرنا اور گھر کے کام بھی کرنا آسان نہیں ہے۔
’ہر رمضان میں امتحانات شروع ہو جاتے ہیں‘
حرا کہتی ہیں کہ ہر رمضان میں امتحانات لازمی ہوتے ہیں چوں کہ رمضان کی روٹین مختلف ہوتی ہے اس لیے امتحانات کی تیاری کیسے کی جائے بالکل سمجھ نہیں آتا۔
انہوں نے کہا کہ نہ تو نیند پوری ہوتی ہے اور نہ ہی ڈھنگ سے عبادت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ’شروع کا عشرہ اس ٹینشن میں گزر جاتا ہے کہ امتحانات قریب ہیں اور اس کے بعد باقی رمضان پیپر کی تیاری اور امتحانات میں گزر جاتا ہے۔ روزے کے ساتھ پڑھنا کافی مشکل ہے.‘
’ہر سال دل یہی چاہتا ہے کہ ٹینشن کے بغیر رمضان گزرے‘
حرا نے کہا کہ ’ہر سال سوچتی ہوں کہ کب یونیورسٹی ختم ہوگی اور میں بھی باقی سب کی طرح اس مہینے کی برکتوں اور رحمتوں سے لطف انداز ہوں گی تاہم اب یہ میری ڈگری کے دوران آخری رمضان ہے جس کی مجھے خوشی ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ رمضان کی اتنے مصروف روٹین اور امتحانات کی وجہ سے عید کی تیاری میں بھی بالکل مزہ نہیں آتا۔
’تھکاوٹ اور نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے طبعیت کافی عجیب رہتی ہے‘
حرا نے وی نیوز کے ایک سوال پر بتایا کہ یونیورسٹی میں صبح 9 بجے کلاس ہوتی ہے اور اس کے لیے گھر سے تقریبا آٹھ بجے نکلتی ہوں اور واپسی تک ظہر کا وقت ہوجاتا ہے، آتے ہی نماز اور پھر قرآن پاک پڑھنے کے بعد صرف اتنا وقت بچتا ہے کے ایک سے دو گھنٹے آرام کر لیا جائے اتنے میں عصر ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عصر کے بعد افطاری بنانے کی تیاری شروع ہو جاتی ہے اور افطار کے بعد دوبارہ کچن کے کام کرو اور پھر تراویح کے لیے جانا ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں اسی طرح رات کے 11 بج جاتے ہیں اور پھر امتحانات کی تیاری کرنی ہوتی ہے یوں تقریبا سحری تک وقت پڑھائی میں گزر جاتا ہے اور سحری کے بعد مشکل سے کچھ ٹائم سونے کا ملتا ہے اور پھر یونیورسٹی جانے کا ٹائم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اس ساری روٹین کی وجہ سے نیند پوری نہیں ہوتی اور بہت سستی رہتی ہے۔‘