جہاں آئینی ترمیم کے ساتھ سپریم کورٹ ججز کی تعداد دگنی ہو گئی ہے وہیں ان کی تنخواہوں میں دگنے سے زیادہ اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ ججز کا ہاؤس رینٹ 68 ہزار روپے سے بڑھا کر 3 لاکھ 50 ہزار روپے کر دیا گیا یعنی ہاؤس رینٹ میں 5 گنا سے زائد اضافہ کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ ججز کی تعداد بڑھانے، فوجی سربراہان کی مدت 5 سال کرنے کے بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور
اسی طرح جوڈیشل الاؤنس جو ججوں کی تنخواہ کا حصہ ہوتا ہے وہ 4 لاکھ 28 ہزار روپے سے بڑھا کر 11 لاکھ 68 ہزار روپے کر دیا گیا جو تقریبا 3 گنا اضافے سے کچھ کم ہے۔ اب یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ ججوں کی تعداد بھی دگنی ہو گئی ہے تو اس سے یقیناً ججز پر اٹھنے والے اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔
عدلیہ کی گزشتہ سالوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صرف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس وقت 60 ہزار سے زائد مقدمات زیرالتوا ہیں اور کئی مقدمات برسوں سماعت کے منتظر رہتے ہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر میاں رؤف عطاء نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مقروض اور غریب ملک کے ساتھ زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججز ایک دانشور طبقہ ہوتا ہے اور پہلے ہی ان کی کافی ساری چیزیں فری ہوتی ہیں تو میرے خیال سے انہیں خود ہی انکار کر دینا چاہیے۔
تنخواہ بڑھی ہے تو ججوں کا احتساب بھی ہونا چاہیے، علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور معروف قانون دان بیرسٹر علی ظفر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں تو سمجھتا ہوں کہ ججز کو آرام دہ زندگی مہیا کرنا ریاست کی ذمے داری ہے اور اگر یہ اضافہ کسی کرائیٹریا کے تحت کیا گیا ہے تو پھر اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ججز کا کارکردگی کی بنیاد پر احتساب بھی کیا جائے۔
مزید پڑھیے: ججز کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں غیر معمولی اضافہ، نوٹیفکیشن جاری
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ججز سیاسی مقدمات میں الجھ جاتے ہیں اور عام نوعیت کے مقدمات سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں ہو پاتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تنخواہیں بڑھنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اب اچھے وکیل بھی جج بننے کے لیے راغب ہوں گے لیکن ضروری یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ججوں کا احتساب بھی کیا جائے اور کارکردگی نہ دکھانے والے ججوں کو فارغ کیا جائے۔
تنخواہوں میں اتنا بڑا اضافہ رشوت کے ضمن میں آتا ہے، عمران شفیق
سپریم کورٹ کے وکیل عمران شفیق نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ججوں کی تنخواہوں میں اس قدر اضافہ رشوت کے ضمن میں آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو ججوں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے اور دوسرے ان کی تنخواہوں میں اس قدر اضافہ کر دیا گیا ہے جو قومی خزانے اور غریب عوام پر بوجھ ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تنخواہ تو کام کی مناسبت سے بڑھائی جاتی ہے اب یہی تنخواہ ان کی پینشن میں بدل جائے گی۔
عمران شفیق نے کہا کہ وزیراعظم، اسپیکر، چیئرمین سینیٹ کی تنخواہیں اس قدر زیادہ نہیں جتنی ججوں کی کر دی گئی ہیں جس کا کوئی معقول جواز نہیں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: 97 ارب روپے کے زیر التوا ٹیکس مقدمات فوری نمٹانے کے لیے اقدامات کا آغاز
انہوں نے کہا کہ اسلامی ریاست میں قاضی کا منصب پیسہ بنانے کی بجائے ثواب کمانے کا ذریعہ ہوتا ہے اور ایک حد تک معقول معاوضہ دیا جانا چاہیے لیکن 50 لاکھ روپے ایک گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہ تھی تو اس قدر شور پڑ گیا تھا، اب اتنے سارے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ججز کی نتخواہوں سے غریب ملک کے عوام پر بوجھ پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان تنخواہوں کی منظوری دینے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔
تنخواہوں کا بڑھنا اچھی بات پر ٹائمنگ بڑی مشکوک ہے، ایڈووکیٹ صلاح الدین
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل صلاح الدین نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ججز کی تنخواہیں اچھی ہونی چاہییں۔
یہ بھی پڑھیے: زیر التوا مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی متحرک
ایڈووکیٹ صلاح الدین نے کہا کہ اس سے اچھے وکیل جج بننے کی طرف مائل ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عام طور پر اچھے وکیل کم تنخواہوں کی وجہ سے جج بننے کی طرف مائل نہیں ہوتے اور کرپشن کی روک تھام کے لیے بھی ضروری ہے کہ ججوں کی تنخواہیں اچھی مقرر کی جائیں لیکن اس اضافے کی ٹائمنگ بڑی مشکوک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف آپ نے عدلیہ کی آزادی سلب کرلی ان کے اختیارات ختم کر دیے اور دوسری طرف آپ ان کی تنخواہوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور اب صرف یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس سے قبل اضافہ کب ہوا تھا اگر یہ 5 سال پہلے ہوا تھا تو پھر تو یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے۔