سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ کسی کی مرضی کے بغیر اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنا اس کی نجی زندگی میں مداخلت اور خلاف قانون ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ایک کیس میں ٹرائل عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر ایک شخص کی ولدیت دستاویزات میں تسلسل کے ساتھ ثابت ہے اور اس کے باپ نے اپنی زندگی میں بچے کی ولدیت کو ماننے سے کبھی انکار نہیں کیا تو ایسی صورت میں ڈی این اے ٹیسٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔
معاملہ ہے کیا ؟
جائیداد کے حقیقی وارث کا تعین کرنے کے لئے ایک مقامی سول عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا کہ محمد نواز محمد حسین کی بجائے تاج دین اور زبیدہ بی بی کا بیٹا ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے عدالت محمد نواز، تاج دین اور زبیدہ بی بی کے ڈی این اے ٹیسٹ کے احکامات جاری کرے۔
سول عدالت نے3 فروری 2010 کو شواہد کی بنیاد پر درخواست خارج کرتے ہوئے لکھا کہ دستاویزی ثبوتوں کے مطابق محمد نواز کی ولدیت کے بارے میں کوئی ابہام نہیں۔
سول عدالت کے فیصلے کے خلاف محمد نواز کے مخالفین نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں اپیل دائر کی جو2 جون 2010 کو منظور ہو گئی اورایپلیٹ کورٹ نے محمد نواز، تاج دین اور زبیدہ بی بی کے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم جاری کر دیا۔
مذکورہ احکامات کے خلاف محمد نواز نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جس نے 2 ستمبر 2015 کو اپیل مسترد کرتے ہوئے محمد نواز کے ڈی این اے ٹیسٹ کا ایپلیٹ کورٹ کا حکم نامہ بحال رکھا۔
محمد نواز کے مخالفین کون ہیں؟
سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے والے محمد نواز کے مخالفین اس کے باپ محمد حسین کے بھتیجے ہیں اور انہوں نے ٹرائل کورٹ میں موقف اپنایا تھا کہ ان کے چچا محمد حسین بے اولاد انتقال کر گئے تھے اور محمد نواز ان کا بیٹا نہیں بلکہ یہ تاج دین اور زبیدہ بی بی کہ اولاد ہے اور اس نے دھوکے سے جائیداد اپنے نام کروا لی ہے۔
معاملہ سپریم کورٹ میں آ گیا
2 ستمبر2015 کو لاہور ہائی کورٹ سے اپیل مسترد ہونے کے بعد محمد نواز نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے محمد نواز کے مخالفین کی ایپلیٹ کورٹ سے ڈی این اے کروانے کی اپیل منظور ہونے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ تاج دین اور زبیدہ بی بی جو کبھی عدالتی کاروائی کا حصہ ہی نہیں تھے اور نہ ہی اس مقدمے میں کبھی بطور گواہ پیش ہوئے، ایپلیٹ کورٹ کیسے کسی کو سنے بغیر اور اس کی مرضی کے بغیراس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا حکم جاری کر سکتی ہے اور اس معاملے پرایپلیٹ عدالت نے کسی قانون کا حوالہ تک نہیں دیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے لکھا ہے کہ کسی کی مرضی کے بغیر اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانا بنیادی انسانی حقوق، شخصی آزادی اور نجی زندگی (پرائیویسی) کے خلاف ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 9 اور 14 کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ پرائیویسی یا نجی زندگی کا تعلق انسان کے حقِ زندگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے تاکہ کوئی بھی شخص بنا خوف کے اپنی زندگی کے فیصلے کر سکے۔ مرضی کے بغیر ڈی این اے ٹیسٹ نجی زندگی میں مداخلت اور بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق صرف فوجداری قوانین کی بعض شقوں میں مرضی کے بغیر ڈی این اے ٹیسٹ کی اجازت دی گئی ہے لیکن سول لاء میں ایسی کوئی اجازت نہیں۔ ڈی این اے کسی شخص سے متعلق ایک وسیع تر معلومات کا خزانہ ہوتا ہے۔ بغیر اجازت ڈی این اے ٹیسٹ شخصی آزادی کے خلاف ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ سول مقدمات میں عدالتیں مقدمے کا سامنے کرنے والے شخص کو مجبور نہیں کر سکتیں کہ وہ مقدمہ دائر کرنے والے کی مرضی کے مطابق شواہد لے کر آئے۔
قانون شہادت 1984 کی شق 128 کے مطابق کسی عورت کی کسی مرد کے ساتھ ہوئی قانونی شادی کے عرصے میں پیدا ہونے والے بچے کی ولدیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے ایپلیٹ کورٹ کے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے احکامات کو مسترد کرتے ہوئے ٹرائل عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے جس نے ڈی این اے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔