پاکستان نے گرین اکانومی کی بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ4 سالہ کنٹری پروگرام فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جس کا مقصد گرین گروتھ اقدامات کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے تعاون بڑھا کر پائیدار ترقیاتی اہداف کو آگے بڑھانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ترقی یافتہ ممالک 100 ارب ڈالر کی کلائیمیٹ فنانسنگ کا وعدہ پورا کریں، اسحاق ڈار
جمعرات کو کوپ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آذربائیجان کے شہر باکو میں اقوام متحدہ کی زیر قیادت گلوبل کلائمیٹ کانفرنس (سی او پی 29) کی رسمی تقریب کے دوران معاہدے پر پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی سیکرٹری عائشہ حمیرا موریانی اور گلوبل گرین گروتھ انیشی ایٹو (جی جی جی آئی) کی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہیلینا میک لوڈ نے دستخط کیے۔
گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دنیا کا پانچواں سب سے متاثرہ ملک ہے۔ 2022 میں تباہ کن سیلاب نے 1700 سے زیادہ افراد کی جان لے لی، 33 ملین سے زیادہ افراد متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔
مزید پڑھیں:زرعی شعبہ کی ترقی کے لیے امریکا پاکستان ’ گرین الائنس‘ جاری رہے گا، ڈونلڈ بلوم
اگرچہ بین الاقوامی امدادی اداروں نے گزشتہ جنوری میں پاکستان کو تباہ کن سیلاب سے نکلنے میں مدد کے لئے 9 ارب ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کیا تھا ، لیکن حکام کا کہنا ہے کہ وعدکے کے مطابق رقم میں سے اب تک بہت کم رقم پاکستان کو فراہم کی گئی ہے۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی رابطہ اور جی جی جی آئی نے 4 سالہ کنٹری پروگرام فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کا مقصد پاکستان کے پائیدار ترقی کے اہداف کو آگے بڑھانا ہے۔
اس موقع پر ہیلینا میک لوڈ نے کہا کہ ان کے ادارے کا مقصد پانی کی قلت، جنگلات کی کٹائی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے پیدا ہونے والے توانائی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قومی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون کے ذریعے پاکستان کو گرین اکانومی کی جانب سےسہولت فراہم کرنا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے پاکستان کے ساتھ مل کر گرین فنانس کو متحرک کرنے، موسمیاتی ایکشن فریم ورک کی حمایت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر جی جی جی آئی کا شکریہ ادا کیا۔
پاکستان کو باقاعدگی سے موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے دیگر اثرات جیسے خشک سالی، سمندری طوفان، موسلا دھار بارشوں اور ہیٹ ویو کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت فضائی آلودگی کی ریکارڈ سطح کی وجہ سے مشرقی شہر لاہور اور صوبہ پنجاب کے دیگر شہروں میں سینکڑوں افراد کو اسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے، اسکولوں کی بندش اور گھروں میں رہنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں موسمیاتی تبدیلی اور زراعت کو درپیش چیلنجز
کارخانوں اور گاڑیوں سے کم معیار کے ایندھن کے دھویں کااخراج، جو زرعی پرالی جلانے کی وجہ سے بڑھتا ہے، ہر موسم سرما میں لاہور اور اس کے گرد و نواح کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، جو ٹھنڈے درجہ حرارت اور آہستہ آہستہ چلنے والی ہواؤں کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔
بھارت کی سرحد پر فیکٹریوں سے بھرا ہوا ایک کروڑ 40 لاکھ آبادی والا یہ شہر باقاعدگی سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے، لیکن نئی دہلی کی طرح اس نے بھی رواں ماہ ریکارڈ سطح کو چھو لیا ہے۔