سپریم کورٹ نے بجلی چوری میں ملوث میٹر سپروائزر کی درخواست ضمانت خارج کردی۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان یحییٰ خان آفریدی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس ملک شہزاد نے کہا دیے کہ اسی اہلکار کے علاقے میں 85 فیصد بجلی چوری ہوتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پاور ڈویژن نے بجلی چوری کے خلاف الگ عدالتیں اور تھانے قائم کرنے کی خبریں مسترد کردیں
جسٹس ملک شہزاد نے ریمارکس دیے کہ بجلی چوری اس اہلکار کی مرضی سے ہوتی تھی، جس پر ملزم غلام مصطفیٰ کے وکیل نے دلائل پیش کیے کہ اس کی نوکری صرف میٹر کی حد تک تھی، ملزم کا کام بجلی چوری پکڑنا نہیں تھا، ملزم نے عدالت کو بتایا کہ ملزم 6 ماہ سے جیل میں ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل شفقت عباسی نے عدالت کو بتایا کہ ملزم پر مجموعی طور پر 62 لاکھ روپے کی بجلی چوری کا مقدمہ ہے، ملزم سندھ الیکٹرک سپلائی کمپنی کی جانب سے حیدر آباد کے علاقے میں ملازمت کررہا تھا، ملزم کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمہ درج کر رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پری پیڈ میٹرنگ، بجلی چوری کا واحد حل ہے؟
بعدازاں، عدالت نے بجلی چوری میں ملوث میٹر سپروائزر غلام مصطفیٰ کی درخواست ضمانت خارج کردی۔