وی نیوز ایکسکلوسیو: اپریل 2022 میں دی گئی ہماری رولنگ غلط تھی: سابق اسپیکر اسد قیصر کا اعتراف

جمعرات 13 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

‎سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ سابق سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ ہم نے اپریل 2022 میں جو رولنگ دی وہ غلط تھی لیکن ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کیا۔

‎’ نہیں چاہتے کہ ملک کسی سانحہ سے دوچار ہو‘

سابق اسپیکر قومی اسمبلی نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ’اس وقت عوام میں فوج سے متعلق جو ناراضگی پائی جاتی ہے ہمیں امید ہے کہ فوج یہ غصہ ختم کرنے کے لیے اپنی پالیسی تبدیل کرے گی۔ یہ ملک بھی ہمارا ہے اور فوج بھی ہماری ہے، اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ یہ ملک کسی سانحہ سے دوچار ہو‘۔

‎’ملکی مفاد کو ذاتی انا پر ترجیح دیں‘

انہوں نے کہا کہ ’اداروں میں لوگوں سے درخواست کرتا ہوں ملکی مفاد کو ذاتی انا پر ترجیح دیں، جب آپ کسی عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو ذاتی پسند نا پسند سائیڈ پر رکھنا پڑتی ہے‘۔

‎’اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نظر نہیں آرہی‘

اسد قیصر کہتے ہیں کہ ’حالات بہت خراب ہو گئے ہیں، قوم کے اندر امید ختم ہوگئی ہے اور جب امید ختم ہو جائے تو پھر  انقلاب آتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت نیوٹرل نظر نہیں آرہی ہمیں امید ہے کہ وہ اے پولیٹکل رہیں گے‘۔

‎’قاضی فائز عیسیٰ کو سزایافتہ لوگوں کو ساتھ بیٹھا دیکھ کر افسوس ہوا‘

‎جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے آئین کی گولڈن جبلی کے موقع پر خطاب کے حوالے تبصرہ کرتے ہوئے سابق اسپیکر نے کہا کہ ’ہمیں تمام ججز کا احترام ہے، عدالت کے اندرونی معاملات سے قطع نظر ہم قاضی فائز عیسیٰ کا بھی احترام کرتے ہیں، لیکن انہیں سزا یافتہ لوگوں اور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر افسوس ہوا جن پر کرپشن کے بڑے بڑے مقدمات ہیں‘۔

’ہمیں چیف جسٹس سے امید ہے‘

‎انہوں نے کہا کہ ’یہ چیف جسٹس کے لیے بھی اب ایک چیلنج بن گیا ہے کہ وہ کس طرح سے آئین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں امید چیف جسٹس سے ہے‘۔

’قاسم سوری کی رولنگ غلط تھی‘

‎ایک سوال کے جواب میں سابق سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ ’ہم نے اپریل 2022 میں جو رولنگ دی وہ غلط تھی لیکن ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کیا‘۔

9 اپریل کی رات کا احوال بتاتے ہوئے اسد قیصر کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد کے موقع پر کسی قسم کا دباؤ نہیں تھا۔ عمران خان نے رات کو 11 بجے وزیراعظم ہاؤس میں بلایا اور قانونی مشاورت کی۔ اس وقت تحریک انصاف نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرانا ہے اور اس میں فواد چوہدری نے مشورہ دیا کہ اسپیکر بھی استعفی دیں جس پر میں نے رضامندی ظاہر کر دی‘۔

‎انہوں نے کہا کہ ’ایک رائے یہ بھی تھی کہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے کو دو سے تین دن تک مزید کھینچو۔ میرے اوپر کوئی دباؤ نہیں تھا، میں نے جو بھی کیا وہ ضمیر کے مطابق، پارٹی قیادت کے مشورے سے کیا اور قانون کے مطابق کیا ہے۔ ‎لیڈر شپ کا فیصلہ تھا اور کسی قسم کے دباؤ کے بغیر تھا‘۔

’‎جوڈیشل ریفارمز کا مقصد عدلیہ میں تناؤ پیدا کرنا ہے‘

سابق اسپیکر قومی اسمبلی کے مطابق ’اس وقت پارلیمان میں جو قانون سازی کی جارہی ہے اس کا مقصد صرف اور صرف نواز شریف کا راستہ صاف کرنا ہے، پارلیمنٹ میں جوڈیشل ریفارمز کے نام پر عدلیہ کے درمیان تناؤ کو بڑھاوا دیا جارہا ہے‘۔

’ استعفیٰ نہ دے کر مؤثر آواز بن سکتے تھے‘

اسد قیصر نے کہا کہ ’قومی اسمبلی سے استعفوں کے معاملے پر پارٹی میں مختلف آرا تھیں، اس وقت اپنی رائے ظاہر نہیں کروں گا لیکن پارٹی جب فیصلہ کرلے اس کو تسلیم کرنا چاہیے، شاید قومی اسمبلی سے استعفیٰ نہ دے کر مؤثر آواز بن سکتے تھے لیکن ہم نے استعفی دے کر قومی اسمبلی کی قانونی حیثیت ہی ختم کردی۔ اس وقت قومی اسمبلی میں عوامی نمائندگی موجود ہی نہیں، یہاں ہونے والی قانون سازی کون تسلیم کرے گا۔ گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے آئین کی اور اسی روز آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ انہیں آئین نہیں بلکہ ذاتی مفادات سے لینا دینا ہے۔

’جوڈیشل اور بیوروکریسی میں ریفارمز نہ لانا بڑی غلطی تھی‘

سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ ’ہمیں کمزور حکومت نہیں لینی چاہیے تھی، دوبارہ الیکشن میں جانا چاہیے تھا، بہت کمپرومائز آگئے جس کی وجہ سے نہ قانون سازی ہو سکی اور نہ ہی اپنے منشور پر عمل کر سکے۔ ‎اگر اس قسم کی حکومت دوبارہ ملے تو نہیں لینی چاہیے، ہم نے اپنے دور میں جوڈیشل ریفارمز پر پوری توجہ نہیں دی، ہماری غلطی تھی‘۔

’امریکا میں فرم ہائیر کیے جانے کا علم تھا‘

‎سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ہمیں معلوم تھا کہ حسین حقانی کے ذریعے امریکا میں ایک فرم ہائیر کی گئی تھی اور اس وقت بھی ہم جو کچھ کر سکتے تھے کر رہے تھے لیکن پاکستان میں سب کچھ پہلے سے طے کر لیا گیا تھا اور ہمیں حکومت سے تو نکال دیا ہے لیکن سیاسی طور پر اس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا ہے، ہمارے پاس اس وقت نظریاتی ورکر بن گئے ہیں اور جو لوگ پہلے ہمیں ممی ڈیڈی پارٹی کا طعنہ دیتے تھے اب ہمارے ورکر سڑکوں پر بھی نکل رہے ہیں، گرفتار بھی ہو رہے ہیں۔

’ کارکنان پر تشدد کا حساب لیں گے ‘

‎انہوں نے کہا کہ ’قانون کا غلط استعمال کیا جارہا ہے اور ہمارے رہنماؤں اور کارکنان کو گرفتار کیا جارہا ہے، پولیس قانون پر عمل کرنے کے بجائے پارٹی بنی ہوئی ہے اور کارکنان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، ٹارچر کیا جارہا ہے۔ کارکنان پر جو غیر قانونی تشدد کیا جارہا ہے ہم اس کا حساب لیں گے۔ ہم اس غیر قانونی احکامات پر عمل کرنے والے پولیس افسران کے خلاف مقدمات درج کروانے کا سوچ رہے ہیں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp