ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی ماہ صیام کے آخری عشرے کی آمد کے ساتھ ہی بازاروں میں خریداری کے لیے رش بڑھ گیا ہے۔ عید کی تیاریوں میں جہاں مرد مصروف ہیں وہیں خواتین اور بچے بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
ایک جانب جہاں بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں خواتین کپڑوں، جیولری، مہندی اور میچنگ جوتوں کی خریداری میں پیش پیش ہیں تو وہیں اکیسویں صدی کے دور میں بھی صوبے کے بیشتر اضلاع میں خواتین کے لیے عید کی شاپنگ ان کے گھروں کے مرد ہی کرتے ہیں۔
بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں آج بھی خواتین کو گھر کی چار دیواری میں رکھا جاتا ہےاور ان کی تمام ضرورت پوری کرنے کی ذمہ داری مردوں پر ہوتی ہے۔
عید کی خریداری سے متعلق وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کوہلو کی رہائشی خاتون بخت بی بی نے کہا کہ ان کے ہاں خواتین کا گھروں سے نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے یہاں کے مرد اسے غیرت کے خلاف سمجھتے ہیں اسی لیے ہمارے مرد ہماری تمام ضروریات کی اشیاء ہمیں گھروں پر ہی لا کر دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے قبائلی معاشرے میں ہمیں شہری خواتین جیسے ملبوسات زیب تن کرنے کی بھی اجازت نہیں، ہم اپنی ثقافت اور رواج کے مطابق ہی لباس پہنتی ہیں۔ عید کے لیے ہمارے مرد حضرات ہمیں کپڑا لا دیتے ہیں جس پر ہم اپنی پسند کی کشیدہ کاری کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں ان خواتین کو اچھا نہیں سمجھا جاتا جو بازاروں میں خریداری کرنے کے لیے جاتی ہیں۔
ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ یا ملک کے دیگر بڑے شہروں کی طرح سوئی اور ڈیرہ بگٹی میں خواتین عید کی شاپنگ کرنے بازار نہیں جاتیں بلکہ وہاں کے رسم و رواج کے مطابق گھر کی خواتین کے لیے مرد خریداری کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکل یا ٹھیلوں پر کپڑے بیچنے والے گلی محلوں میں آتے ہیں لیکن ان سے خریداری بھی خواتین خود نہیں کرتیں بلکہ گھر کے مرد یا بچے کپڑے گھر میں دکھانے کے لیے لاتے ہیں پھر خواتین کپڑے پسند کرتی ہیں اور جو سوٹ یا کپڑا خریدنا ہو وہ رکھ لیتی ہیں اور اس کے پیسے مردوں یا بچوں کے ہاتھ اس کپڑا فروخت کرنے والے کو بھجوا دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح ان علاقوں میں خواتین چوڑیاں بھی خریدنے کے لیے بازار نہیں جاتیں، اندرون سندھ سے جو خواتین چوڑیاں بیچنے کے لیے دیگر شہروں کو جاتی ہیں وہی خواتین گھر گھر جا کر انہیں چوڑیاں پہنچاتی ہیں اور اس طرح سوئی اور ڈیرہ بگٹی میں خواتین گھر بیٹھے ہی اپنی شاپنگ مکمل کرتی ہیں۔
کوئٹہ میں کپڑے کے کاروبار سے منسلک مجتی نعیم نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کوئٹہ میں ماضی کی نسبت اب خواتین کی ایک بڑی تعداد بازاروں کا رخ کرتی ہیں اور عید کے موقع پر اپنے من پسند ملبوسات کی خریداری کرتی ہیں لیکن صوبے کے پشتون اور بلوچ آبادی والے علاقوں سے مرد آج بھی اپنے اپنے اضلاع سے کوئٹہ آتے ہیں اور اپنے گھر کی خواتین کے لیے عید کی خریداری کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دیگر اضلاع سے آنے والے مرد تھان در تھان خرید کر اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں جس کے بعد ان کی خواتین گھروں پر ان ملبوسات کی سلائی کرتی ہیں۔
کوئٹہ کے نجی ٹی وی چینل میں کام کرنے والی خاتون صحافی سعدیہ جہانگیر جو خواتین کے مسائل سے متعلق گزشتہ 15 سال سے صحافت کررہی ہیں ان کے مطابق بلوچستان میں آج بھی قبائلی نظام آب و تاب سے قائم ہے، صوبے کے شہری علاقے میں خواتین کو جہاں پردے کے ساتھ تعلیم، کھیل اور بازاروں میں خریداری کی اجازت ہے وہیں صوبے کے دیہاتی علاقوں میں آج بھی خواتین کا تعلیم حاصل کرنا اور بازاروں میں نکلنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔
سعدیہ جہانگیر نے بتایا کہ بلوچستان کے قبائلی مردوں کا یہ موقف ہے کہ شرعی طور پر خواتین کا نان و نفقہ مرد پر ہوتا ہے اسی لیے عورت کی تمام تر ذمہ داریاں مردوں کو ہی پوری کرنا ہوتی ہیں اس کے علاوہ یہ تاثر بھی عام ہے کہ اسلام میں خواتین کو پردے کا حکم ہے اسی لیے انہیں بازاروں میں جاکر خریداری نہیں کرنے دی جاتی۔
دوسری جانب خواتین کا یہ موقف ہے کہ کئی بار مردوں کی لائی گئی اشیاء انہیں پسند نہیں آتیں لیکن اس کے باوجود انہیں وہ ملبوسات، جیولری یا جوتیاں پہننا پڑتی ہیں کیونکہ انہیں گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب دیہات میں بھی خواتین کے بازاروں میں جانے کا رواج قائم ہوتا جا رہا ہے۔