آئینی بینچ کا سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کو جرمانہ، وجہ کیا بنی؟

پیر 9 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا ہے۔

سابق چیف جسٹس پر جرمانہ فوجی عدالتوں کے فیصلہ کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت روکنے کی درخواست کی سماعت کے دوران عائد کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں سے پہلے 26ویں ترمیم کا مقدمہ سنا جائے، سابق چیف جسٹس نے متفرق درخواست دائر کردی

درخواست گزار جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل اعتزاز احسن نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک سماعت نہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے آج درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جواد ایس خواجہ کو 20 ہزار روپے جرمانہ کردیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کا کوئی پیارا زیرحراست نہیں اس لیے تاخیر چاہتے ہیں، اگر عدالت کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرتے تو یہاں سے چلے جائیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ آئینی ترمیم کالعدم ہوئی تو اس کے تحت ہونے والے فیصلے بھی ختم ہوجائیں گے، جس پر جسٹس مظہر علی نے ریمارکس دیے کہ فیصلوں کو ہمیشہ تحفظ حاصل ہوتا ہے، ہر سماعت پر ایسی ہی درخواستیں دائر کی جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلائے جانے کا کوئی اشارہ نہیں ملا، برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ آئینی ترمیم کے تحت ہی کام کر رہی ہے، جو بھی بینچ بن رہے ہیں، نئی ترمیم کے تحت ہی بن رہے ہیں، آئینی ترمیم کا مقدمہ بھی ترمیم کے تحت بننے والا بینچ ہی سنے گا۔

بعدازاں عدالت نے حسان نیازی کے والد حفیظ اللہ نیازی کو روسٹم پر بلا لیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ان سے پوچھا کہ آپ کا بیٹا جیل میں ہے، کیا آپ مقدمہ چلانا چاہتے ہیں، جس پر حفیظ اللہ نیازی بولے، ’بالکل کیس چلانا چاہتا ہوں۔‘ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ جیلوں میں پڑے ہیں، ان کا سوچیں، آپ کا تو اس کیس میں حق دعویٰ نہیں بنتا۔

’مسلح افواج کیساتھ کام کرنیوالوں پر بھی ملٹری کورٹس کی شقیں ختم کردیں‘

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہوسکتا، آرمی ایکٹ مسلح افواج کے ساتھ کام کرنے والی پرائیویٹ کمپنیز کے ملازمین پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ یا تو پھر یہ شقیں بھی کالعدم کردیں، پھر کہیں سویلین کا وہاں ٹرائل نہیں ہوسکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وہ توسویلین کی الگ قسم ہوتی ہے جو آرڈیننس فیکٹری وغیرہ میں کام کرتے ہیں۔

خواجہ حارث نے جسٹس جمال مندوخیل کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ سویلین کی کیٹیگری کی بات ہی کرتا ہے۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کا کیس مگر آرمی ایکٹ کی اس شق میں نہیں آتا۔

یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم کا مقصد عمران خان کو فوجی عدالتوں سے سزا دلوانا ہے،,سلمان اکرم راجا

جسٹس مسرت ہلالی نے دریافت کیا کہ کور کمانڈرز جب اپنے گھر کو بطور دفتر استعمال کریں تو کیا اسے دفتر ڈیکلیئر کرتے ہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی بھی پوچھا کہ یہ بات کتنی درست ہے کہ یہ آئیڈیا بعد میں آیا کہ کور کمانڈر کا گھربھی دفتر تھا۔

خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ میں ایسے کسی نوٹیفکیشن کی طرف نہیں جارہا۔ جس پر جسٹس نعیم افغان نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں انسداد دہشتگردی عدالتوں نے ملزمان کی ملٹری کو حوالگی کیسے دی، کیا اے ٹی سی کورٹس کا وجوہات پر مبنی کوئی آرڈر موجود ہے؟ جسٹس نعیم اختر افغان بولے، ’آپ یہ سوال نوٹ کرلیں، بے شک آخر میں اس کا جواب دے دیں۔ بعد ازاں، عدالت نے فوجی عدالتوں کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: 26ویں آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اختلافات کا شکار

واضح رہے کہ جمعہ کو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے معاملے پر سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی تھی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ فوجی عدالتوں کا مقدمہ سننے سے پہلے 26ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ کیا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp