یاسین ملک کے خلاف 34 سال پرانے مقدمے کا نیا موڑ بھارتی حکومت کے الزامات پر سوالات اٹھنے لگے

منگل 10 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کشمیر کے دہائیوں پرانے تنازعے کے سائے میں ممتاز کشمیری علیحدگی پسند رہنما اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے سربراہ یاسین ملک کے خلاف مقدمہ دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ تاہم 34 برس پرانے مقدمے میں بھارتی حکومت کے الزامات پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’دی وائر‘ کے مطابق مقدمے میں یاسمین ملک پر 25 جنوری 1990 میں بھارتی فضائیہ کے اہلکاروں پر حملے کا الزام عائد کیا گیا ہے، اس واقعے میں بھارتی فضائیہ کے 4 اہلکار قتل اور 22 زخمی ہوئے تھے۔ سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق حملے میں یاسین ملک، جاوید احمد میر اور مشتاق احمد لون شامل تھے۔

ایف آئی آر میں نامزد 5 دیگر ارکان کیخلاف گواہان کی کمی کے باعث ٹی اے ڈی اے عدالت میں انہیں رہا کردیا گیا تھا۔ راولپورہ کا مقدمہ قریباً 34 سال سے ثبوتوں اور شواہد کی عدم موجودگی کے سبب التوا کا شکار رہا۔ مارچ 2020 میں یاسین ملک اور 6 دیگر افراد پر قتل کی سازش، دہشتگردانہ کارروائیاں اور بغاوت کے الزامات عائد کیے گئے۔

مزید پڑھیں: یاسین ملک کا عدالتی قتل رکوایا جائے، مشعال ملک کا بھارتی اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو خط

وکیلِ حکومت توشار مہتا نے نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی کی عدالت میں یاسین ملک کو سزائے موت دیے جانے کی درخواست دائر کی۔ یاسین ملک پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ممبئی حملے کے ماسٹر مائنڈز کو رہا کروانے کے لیے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی کو اغوا کیا۔ در حقیقت ممبئی حملے کے ماسٹر مائنڈز ڈیوڈ ہیڈلی اور طاہاور رانا نے اس بات کا اعتراف بہت پہلے کر لیا تھا۔

راجیشور سنگھ کے مطابق25 جنوری 1990 کو راولپورہ کے قریب فضائیہ کے اہلکاروں پر ایک شخص نے اپنے پھیرن سے بندوق نکال کر ان پر فائرنگ شروع کر دی۔ پھر 34 سال بعد راجیشور سنگھ نے اپنا بیان تبدیل ہوئے کہا کہ وہ فضائیہ کے اہلکاروں کے ساتھ بس کا انتظار کر رہا تھا جب یاسین ملک نے ان پر فائرنگ شروع کی۔

دوسری گواہ نرمَل کھنّہ کے مطابق اس کا گھر جائے وقوعہ سے صرف 50 گز دور تھا۔ جائے وقوعہ پر میں نے اپنے شوہر کو خون میں لت پت دیکھا اور ان کے پیٹ پر گولی لگی تھی۔ فلائٹ لیفٹیننٹ بی آر شرما کے مطابق وہ راجیشور سنگھ کے ساتھ تھا جب یاسین ملک نے ان پر حملہ کیا۔ ان چشم دید گواہوں کے بیانات میں گہرے تضادات ہیں۔

مزید پڑھیں: یاسین ملک کی جیل میں طبیعت ناساز، بحفاظت رسائی دی جائے، مشعال ملک کا مطالبہ

سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق 3 حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے جبکہ راجیشور سنگھ کے مطابق حملہ آور پیدل تھا۔ نرمَل کھنہ نے فلائٹ لیفٹیننٹ شرما کے بیان پر ہی انحصار کرتے ہوئے اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔ اس سارے واقعے کے چشم دید گواہ فلائٹ لیفٹیننٹ شرما کو کیوں شامل تفتیش نہیں کیا گیا؟

درحقیقت صرف 2 ہی شرما کے نام سے آفیسرز کا ریکارڈ بھارتی رکھشک کے ڈیٹا بیس میں نظر آیا۔ ان میں سے ایک 29 اپریل 1973 کو انتقال کرگیا تھا اور دوسرا 2016 میں انتقال کر چکا ہے۔ روی کھنّہ کا نام قومی جنگی یادگار میں شامل نہیں جبکہ اسے ہیرو کی طرح دفن کیا گیا تھا۔

یاسین ملک کی راولپورہ میں شناخت کو بے وقعت سمجھنے کے لیے 2 اور وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ فائرنگ صبح 7:30 بجے ہوئی جبکہ سری نگر میں سورج 7:32 پر طلوع ہوا لہذا فائرنگ کے وقت اندھیرا تھا۔ راجیشور سنگھ کا یاسین ملک سے فاصلہ قابل تشویش ہے، جبکہ سری نگر میں جنوری کے مہینے میں درجہ حرارت منفی 3 سے منفی 5 ڈگری سیلسیس کے درمیان ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: یاسین ملک کی گیارہ سالہ بیٹی رضیہ سلطانہ والد کی رہائی کے لیے سرگرم

اگر یاسین ملک کا چہرہ دیکھا گیا تو اسے مفلر کسی وجہ سے ہٹانا پڑا ہوگا، اور یہ خطرہ مول لینا پڑا، حقیقتاً اپنی شناخت کو چھپانے کیلئے قاتل اپنا چہرہ چھپا کر رکھتے ہیں۔ راجیشور سنگھ اور بی آر شرما کے بیانات میں تضاد اس جھوٹے مقدمے کے پس پردہ مودی سرکار کے مذموم عزائم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس مقدمے میں یاسین ملک کی شناخت کا طریقہ کار بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ این آئی اے نے بصری شناخت کے تقاضوں کو پس پردہ ڈال کر محض گواہوں کو یاسین ملک کی تصاویر دکھا کر بیانات ریکارڈ کیے۔ ان میں سے کوئی بھی طریقہ عدالت میں ایک لمحے کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ اہم سوال یہ ہے کہ عالمی قوتیں آخر کب تک کشمیریوں کیخلاف غیر انسانی کارروائیوں پر خاموش رہیں گی؟۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp