بنگلہ دیش کیخلاف بھارت کی سوشل میڈیا مہم کے کیا مقاصد ہیں؟

بدھ 11 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے ملک سے انڈیا فرار کے بعد سے ہر گزرتے دن کے ساتھ بنگلہ دیش اور انڈیا کے درمیان کشیدگی بڑھتی جاری ہے۔ بھارت کی جانب سے بنگلہ دیش میں تبدیلی کی حالیہ لہر کو ہندو اقلیتیوں خلاف مظالم کے جھوٹے بیانیے کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بنگلہ دیش: سپریم کورٹ نے حسینہ واجد دور کے قومی نعرے پر پابندی عائد کردی

امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈھاکہ میں ایک ہندو پنڈت کی گرفتاری کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے ۔

انڈیا میں بنگلہ دیش کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں، جبکہ بنگلہ دیش نے اقلیتوں پر مظالم کے بھارتی الزامات کو یکسر رد کر دیا ہے۔

بنگلہ دیش کا مؤقف ہے کہ بھارتی نیوز میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین غلط معلومات پھیلا رہے ہیں اور کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔

پنڈت کرشنا داس کی گرفتاری

25 نومبر کو بنگلہ دیشی ہندو پنڈت کرشنا داس کو ڈھاکہ ایئر پورٹ سے بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر ساحلی شہر چٹاگانگ میں اکتوبر کی ایک ریلی کے دوران بنگلہ دیشی قومی پرچم کے اوپر زعفرانی ہندو مت کا پرچم بلند کرنے کا الزام تھا۔

کرشنا داس کی گرفتاری نے ان کے حامیوں کے احتجاج کو جنم دیا، اور چٹاگانگ کورٹ ہاؤس کے باہر ایک مسلمان وکیل کو قتل کر دیا گیا۔

2 دسمبر کو مشتعل ہندو مظاہرین نے بھارت کی شمال مشرقی سرحدی ریاست تریپورہ میں بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمشنر کے دفتر میں توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔

بنگلہ دیش کا ردعمل

امریکی میڈیا کے مطابق یونس حکومت اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ حسینہ کی معزولی کے بعد ہندوؤں کو پرتشدد حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن حکام کا کہنا ہے کہ تشدد کا محرک مذہب نہیں بلکہ سیاست تھی۔

بنگلہ دیش کے سابق سفارت کار خلیل الرحمان نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ اور بھارت میں دوسرے افراد نے غلط معلومات کی ایک مشترکہ مہم شروع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندو ’نسل کشی‘ کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:بنگلہ دیش کے ریٹائرڈ فوجیوں نے کلکتہ اور آسام پر قبضہ کرنے کے دھمکی دیدی

بنگلہ دیش کی قیادت کرنے والے چیف ایڈوائزر محمد یونس کے سینئر نمائندے خلیل الرحمان نے کہا، ’وہ صرف بنگلہ دیش کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں‘۔

ڈھاکہ یونیورسٹی میں بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس یونین کی صدر میگھملار باسو نے کہا کہ بنگلہ دیش میں کشیدگی اور تشدد کو ’ہندوؤں کے خلاف نسل کشی‘ کہنا ایک شرمناک جھوٹ ہوگا۔

جعلی خبروں کے الزامات

بنگلہ دیش میں بہت سے لوگوں نے بھارت کے مرکزی دھارے اور سوشل میڈیا پر ’جعلی خبریں‘ پھیلانے اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام لگایا ہے۔

’ریومر اسکینر‘ کے آپریشنز کے سربراہ سجاد حسین چودھری کے مطابق بھارتی میڈیا اور ہندوتوا قوم پرست ایکس اور فیس بک اکاؤنٹس عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے بنگلہ دیش کے بارے میں ’جعلی خبریں‘ پھیلا رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp