بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا مقدمہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے جہاں انہوں نے اپنی اور سردار لطیف کھوسہ کی فون ٹیپ لیک کرنے کے اقدام کو چیلنج کررکھا ہے، لیکن آج آئینی بینچ کے سامنے فون ٹیپنگ کا 28 سال پرانا مقدمہ آیا ہے جس میں سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے نومبر 1996 میں اپنی حکومت گرائے جانے کے اقدام کو چیلنج کررکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: فون ٹیپنگ کی اجازت نے ہماری زندگیاں گریڈ 18 افسر کو سونپ دیں، شاہد خاقان عباسی
نومبر 1996 میں جب سابق صدر فاروق خان لغاری نے اپنی ہی جماعت کی حکومت تحلیل کر دی تو اس وقت بے نظیر بھٹو کی حکومت پر ایک الزام یہ تھا کہ انہوں نے وسیع پیمانے پر خفیہ اداروں کو سیاستدانوں اور اہم شخصیات کے فون ٹیپ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
29 جنوری 1997کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے فاروق احمد خان لغاری کے اقدام کو درست قرار دیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی جو آج 28 سال بعد سپریم کورٹ آئینی بینچ کے سامنے مقرر ہوئی ہے۔ جس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا فون ٹیپنگ قانونی طور پر درست ہے یا نہیں۔
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے سماعت کی، دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فون ٹیپنگ کا قانون مبہم ہے اور اس مقدمے کا اثر دیگر زیرسماعت مقدمات پر بھی ہو گا۔
فون ٹیپنگ سے متعلق مقدمات
اس وقت بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی درخواستیں زیرالتوا ہیں جن میں انہوں نے فون ٹییپنگ اور لیکس کو چیلنج کررکھا ہے، اس کے علاوہ ہم نے بہت سارے سیاستدانوں اور مشہور شخصیات کی فون ٹیپ سوشل میڈیا کی زینت بنتے دیکھی ہیں اور اسی تناظر میں آج آئینی بینچ نے بھی کچھ ریمارکس دیے۔
یہ بھی پڑھیں: حساس اداروں کو فون ٹیپنگ کی اجازت دینے کے خلاف درخواست پر لارجر بینچ بنایا جائے، عدالتی نوٹ
گزشتہ دسمبر میں اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بشریٰ بی بی کے مقدمے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کو بتایا تھا کہ حکومت نے کسی خفیہ ایجنسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی۔
آئینی بینچ کی آج کی کارروائی
آج مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا فون ٹیپنگ سے متعلق کوئی قانون سازی ہوئی؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 2013 سے قانون موجود ہے، قانون کے مطابق آئی ایس آئی اور آئی بی نوٹیفائیڈ ہیں اور قانون میں فون ٹیپنگ کا طریقہ کار موجود ہے جس میں عدالتی نگرانی بھی شامل ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ قانون کے مطابق تو فون ٹیپ کرنے کی اجازت صرف جج دے سکتا ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی جج کو اس مقصد کے لیے نوٹیفائی کیا گیا ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج کی نامزدگی بارے مجھے علم نہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ قانون ہر کسی کو ہر فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دیتا۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان اپنے دور میں فون ٹیپنگ کے فوائد بیان کرتے تھے، آج مخالفت کیوں؟ خواجہ آصف
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ معاملہ چیف جسٹس کے چیمبر سے شروع ہوا تھا، چیف جسٹس کہا ں جائے گا، انہوں نے مزید کہا کہ فون ٹیپنگ کا قانون مبہم ہے، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہمیں رپورٹس یا قانون میں دلچسپی نہیں نتائج چاہئیں،اس مقدمے کا اثر بہت سے زیر التوامقدمات پر بھی ہوگا۔
ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے عدالت کو بتایا کہ اس مقدمے کے درخواست گزار میجر شبر سے رابطہ نہیں ہورہا، میجر شبر کے وکیل بھی انتقال کر چکے ہیں۔
جس پر آئینی بینچ نے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
فون ٹیپنگ کے حوالے سے سرکاری نوٹیفیکیشن
اس سال جولائی میں وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ کمیونیکیشن نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس کے مطابق آئی ایس آئی کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996 کی شق 54 کے تحت قومی سلامتی کے لیے فون ٹیپنگ کی اجازت دی گئی تھی۔