مدارس رجسٹریشن بل: صرف ایوان صدر نہیں، حکومت اور ایجنسیاں بھی رکاوٹ ہیں، مولانا فضل الرحمان

جمعہ 13 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مدارس رجسٹریشن بل کی راہ میں صرف ایوان صدر نہیں بلکہ حکومت اور ایجنسیاں بھی بڑی رکاوٹ ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مدارس رجسٹریشن کے معاملے پر ہماری شکایت صرف ایوان صدر اور صدر مملکت سے ہے، ہمیں کسی مدرسے  یا مدرسوں کی کسی تنظیم سے یا ان سے وابستہ علما کرام سے نہیں ہے، یہ مسئلہ دو جمع دو چار کی طرح سادہ ہے، اسے غیر ضروری طور پر گمبھیر بنادیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہمارا مسئلہ پیپلز پارٹی یا ن لیگ سے نہیں، صدر مملکت سے ہے، مولانا فضل الرحمان

انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے یا ان کے بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے حکومت نے ڈرافٹ تیار کیا، جب 26ویں آئینی ترمیم پر گفتگو چل رہی تھی تو اس دوران اسی بل پر بھی گفتگو چل رہی تھی اور ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ الیکشن سے پہلے شہباز شریف کی حکومت میں جو ڈرافٹ اسمبلی میں لایا گیا تھا اور پاس نہیں ہوسکا تھا اسے بھی پاس کیا جائے۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید بتایا، ’چنانچہ بل پہلے سینٹ میں آیا اور اتفاق رائے سے منظور ہوگیا گیا، اس کے بعد بل قومی اسمبلی میں آیا، یہ کارروائی 20 اور 21 اکتوبر کو صبح تک مکمل ہوگئی، جب آئینی ترمیم پر بھی دستخط ہوگئے تو پھر اس بل پر دستخط کیوں روکے گئے۔‘

یہ بھی پڑھیں: اب مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی مل کر اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے؟

انہوں نے مدارس کے معاملے پر صدر آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں بلاول بھٹو سے اپنی ملاقاتوں میں ہونے والے اتفاق رائے کا ذکر کیا اور کہا کہ جس ڈرافٹ کی تیاری میں حکومت کی طرف سے پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں شریک تھی، ہم نے انہی کے ڈرافٹ کو تسلیم کیا اور قبول کیا ہے، اس کے بعد صدر مملکت کے اعتراض کی کیا وجہ تھی۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہمارا مدارس اور ان کی تنظیموں سے جھگڑا نہیں ہے، وہ ان کے کہنے پر شور کررہے ہیں جنہوں نے اس بل کا ڈرافٹ تیار کیا، انہوں نے اب وزارت تعلیم یا سوسائٹی ایکٹ سے وابستہ ہونے کا نیا سوال اٹھا لیا ہے، الیکشن سے پہلے بھی اگر ڈرافٹ تیار ہوا تھا تو وہ بھی تو سرکار نے بنایا تھا اور سرکار کے ڈرافٹ کو ہم نے قبول کیا تھا جس میں ہم نے یہ رعایت دی ہے کہ اگر کوئی چاہے تو سوسائٹی ایکٹ سے وابستہ ہوجائے یا وزارت تعلیم کے ڈائریکٹریٹ جنرل سے وابستہ ہوجائے۔

یہ بھی پڑھیں: مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، حافظ طاہر اشرفی

انہوں نے کہا کہ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے کوئی غلطی نہیں کی، ہمارا ذمہ دار تو ایوان صدر ہے، کیا صدر مملکت ایک ایکٹ کے اوپر یا ایک آئینی ترمیم کے اوپر جو پارلیمنٹ سے پاس ہو جائے 2 بار اعتراض بھیج سکتا ہے، ہمیں بتایا جائے کہ 20 اور 21 اکتوبر کو پاس ہونے والا بل اس پر جو اعتراضات بھیجے گئے ہیں وہ تو ڈیڑھ مہینے کے بعد بھیجے گئے ہیں، ڈیڑھ مہینے تک اعتراضات کے ساتھ بل کس ڈاک میں پڑا رہا، کیا یہ اس لیے کیا گیا کہ بیک ڈیٹ میں دستخط کرکے آپ جھوٹ چھپا سکیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ایکٹ بن چکا ہے، صدر نے ایک اعتراض بھیج دیا ہے، اس کے بعد اگر اس نے آئینی مدت کے اندر اندر اس پر دستخط نہیں کیے تو حکومت اس کا گزٹ کرنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے، صدر عارف علوی نے بھی دستخط نہیں کیے تھے تو کیا اس وقت حکومت نے اس پر باقاعدہ گزٹ نوٹیفکیشن نہیں کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ قانونی نہیں سیاسی ہے، بیرسٹر منصور اعظم

انہوں نے کہا کہ اتحاد مدارس دینیہ کے 16 دسمبر کے اجلاس سے قبل تجویز دیتا ہوں کہ اگر ہمیں اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرنا پڑے تو ہم ایسا ضرور کرنا چاہیے، اس پر مشاورت سے فیصلہ کریں گے۔

بعدازاں، میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگراس معاملے پر سعودی عرب یا کوئی اور ملک حکومت پر دباؤ نہیں ڈال رہا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اس حوالے سے پہلے ہی لائحہ عمل طے کرچکے ہیں کہ ہم پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے کریں گے، اسلام آباد جانا بھی اس میں شامل ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: متفقہ طور پر مدارس کو قومی دھارے میں لایا جائے گا، ڈی جی مذہبی تعلیم

ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ صرف ایوان صدر نہیں بلکہ حکومت اور ایجنسیاں بھی اس بل کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات سے متعلق انہوں نے کہا کہ بات چیت تو اچھی چیز ہے، بات چیت سے تو ہم انکار نہیں کررہے، ہم نے بھی بات چیت ہی کہ ذریعے معاملات طے کیے، ہم تو خود مذاکرات کے قائل لوگ ہیں۔

خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہاں کوئی حکومت نہیں ہے، انہیں صوبہ کے مسائل کا پتا ہے نہ ان کی نزاکت کا پتا ہے، ہم غیرمحفوظ ہیں، کرم میں قتل عام شروع ہے، عوام کا جان و مال محفوظ نہیں تو پھر معیشت کہاں سے آئے گی، کاروبار لوگ کیسے کریں گے، ہمارے دیہاتوں کی مسجدوں اور بیٹھکوں میں مسلح لوگ رہ رہے ہیں، وہاں کے عوام کا کیا حال ہوگا، اسکول میں بچوں کو نہیں بھیج سکتے، کاروبار نہیں کرسکتے کہ بچوں کے لیے کچھ کما کے لاسکیں، لوگ اپنے علاقے چھوڑ کر جارہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp