ڈی چوک میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران حراست میں لیے گئے 39 افراد رہائی کے بعد پھر گرفتار

ہفتہ 14 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے ’ڈی چوک‘ پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے دوران گرفتار 39 کے قریب افراد کو بری کرتے ہوئے دوبارہ نہ گرفتار کرنے کا حکم دیا تاہم پولیس نے عدالت کے احاطے نکلنے کے ساتھ ہی انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کے وارنٹ گرفتاری جاری

ملزمان کو شناخت پریڈ کے لیے رات گئے انسداد دہشتگردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کے روبرو پیش کیا گیا جس پر جج نے اس وقت پر برہمی کا اظہار کیا۔

وکیل دفاع انصار کیانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے کوٹہ پورا کرنے کے لیے بے گناہ کارکنوں کو ان کے گھروں سے گرفتار کیا ہے۔

تفتیشی افسر نے ملزمان کے 30 روزہ ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ 25 نومبر کو ان کی گرفتاری کے بعد سے شناخت کا عمل مکمل نہیں کیا گیا۔

انسداد دہشتگردی عدالت کے جج ذوالقرنین نے ملزمان کی ہتھکڑیاں کھولنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں مقدمات سے بری کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا۔

مزید پڑھیں:گولی کیوں اور کس کے حکم پر چلائی؟جواب دینا پڑے گا، وزیراعلیٰ گنڈاپور

انہوں نے پولیس کو انہیں دوبارہ گرفتار کرنے سے سختی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر پولیس نے دوبارہ ایسا کیا تو میں انہیں ہتھکڑیاں لگا دوں گا‘۔ مبینہ ملزمان کا تعلق اس سے قبل آئی نائن اور مارگلہ تھانوں میں درج مقدمات سے تھا۔

سابق حکمراں جماعت نے گزشتہ ماہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے بانی کی رہائی کے لیے جو احتجاج کیا تھا، اس کا اختتام حکومت کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آدھی رات کو کیے جانے والے کریک ڈاؤن کے بعد پارٹی کے حامیوں کی پسپائی پر ہوا تھا۔

اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کریک ڈاؤن کے بعد تحریک انصاف کے مظاہرین کو ریڈ زون سے منتشر کر دیا گیا تھا جس کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی احتجاج کے مقام سے فرار ہو گئیں تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی احتجاج کے دوران زخمی ایس ایچ او کے اہم انکشافات

اسلام آباد پولیس کے سربراہ نے 27 نومبر کو ایک غیر ملکی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پی ٹی آئی کے ایک ہزار سے زیادہ حامیوں کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے اپنے رہنما عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے وفاقی دارالحکومت پر دھاوا بول دیا تھا۔

عمران خان کے معاونین نے فوری طور پر ثبوت فراہم کیے بغیر الزام عائد کیا تھا کہ اسلام آباد کے وسط میں رات بھر افراتفری کے دوران سینکڑوں افراد گولی لگنے سے زخمی ہوئے تھے جب پولیس نے خان کی اہلیہ کی قیادت میں مظاہرین کو منتشر کیا تھا جنہوں نے حفاظتی رکاوٹیں توڑ دی تھیں۔

اسلام آباد پولیس کے سربراہ علی رضوی نے اس بات کی تردید کی تھی کہ آپریشن کے دوران کوئی گولی چلائی گئی یا فائرنگ کی گئی ۔

انہوں نے کہا تھا کہ احتجاج کے مقام سے خودکار رائفلوں اور آنسو گیس گنوں سمیت ہتھیار ضبط کیے گئے تھے جہاں ہزاروں افراد جمع ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں:رینجرز اہلکاروں کا قتل، عمران خان کیخلاف ایف آئی آر کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں

 ادھر میڈیا رپورٹس کے مطابق عدالت کی جانب سے بری کیے گئے متعدد پی ٹی آئی کارکنوں کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، جس پر پی ٹی آئی کے وکلا نے باقی کارکنوں کو جوڈیشل کمپلیکس کے اندر ہی روک لیا تاہم زیر حراست جو افراد عدالتی احاطے سے باہر آئے تو پولیس نے انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق رہائی پانے والے پی ٹی آئی کارکنان اور وکلا جوڈیشل کمپلیکس میں ہی موجود رہے، وکیل انصر کیانی ایڈووکیٹ نے بتایا ہے کہ جوڈیشل کمپلیکس کی راہداری میں حراست سے رہائی پانے والے 100 کے قریب لوگ موجود ہیں، تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کے سامنے کارکنوں کی دوبارہ گرفتاری کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ عدالت کو پولیس کے روّیے سے آگاہ کر دیا گیا ہے، اب عدالت کے حکم نامے کا انتظار ہے۔انہوں نے بتایا کہ گرفتاری سے بچنے کا لائحہ عمل بنا کر کارکنوں کو باہر نکالیں گے۔

عدالت نے تھانہ کھنہ کے 54، تھانہ آئی نائن کے 16 اور تھانہ کوہسار کے 11 ملزمان کی رہائی کا حکم دیا تھا جبکہ تھانہ کوہسار کے 48 ملزمان کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp