بنگلہ دیشی ماہرین کی پاکستان کو ہندوتوا نظریے کے خلاف مشترکہ جہدوجہد کی پیش کش

پیر 16 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں خوشگوار تبدیلی کا سلسلہ جاری ہے اور اسی تناظر میں اب بنگلہ دیشی ماہرین نے پاکستان کو تجویز دی ہے انہیں بھارتی ہندوتوا نظریے کے خلاف مل کر جدوجہد کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان 300 بنگلہ دیشی طلبہ کو وظائف فراہم کرے گا

اسلام آباد میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں پاک بنگلہ دیش تعلقات پر بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے تعلیمی اور سیاسی ماہرین نے پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، گلوبل یوتھ ایسوسی ایشن، پاک سوشل الائنس اور پاکستان سول سوسائٹی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی اس تقریب میں ڈھاکا یونیورسٹی کے سابق ڈین ڈاکٹر پروفیسر شاہد الزماں سمیت متعدد بین الاقوامی اسکالرز نے ورچوئل شرکت کی۔

شرکا نے مشترکہ امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے مل کر آگے بڑھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے اور کہا کہ ’ہم تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ پروفیسر شاہد الزماں نے کہا کہ ہم نشیب و فراز کے ادوار سے گزرے ہیں لیکن ہم نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے‘۔

مزید پڑھیں:سرحدی تناؤ، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان تجارتی سرگرمیاں ماند پڑگئیں

انہوں نے کہا کہ ’میں بہت خوشی محسوس کرتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کو بہتر طور پر جاننے کے لیے صحیح راستے پر ہیں، ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے صحیح راستے پر ہیں کہ ہمیں ایک بڑے دشمن کا سامنا ہے‘۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم، نوجوان رہنماؤں، سوشل میڈیا کارکنوں اور کاروباری افراد نے جعلی خبروں سے بچنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی اور بنگلہ دیش کی حالیہ طلبہ کی قیادت والی تحریک کو ’مون سون انقلاب‘ قرار دیا۔

یہ کانفرنس ڈھاکا میں بنگلہ دیش کے پروفیسر محمد یونس کی قیادت میں موجودہ عبوری حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان پگھلتی برف کے پس منظر میں ہو رہی ہے۔

ستمبر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79 ویں اجلاس کے موقع پر پروفیسر یونس سے ملاقات کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:بنگلہ دیش کے ریٹائرڈ فوجیوں نے کلکتہ اور آسام پر قبضہ کرنے کے دھمکی دیدی

ملاقات کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان کے مضبوط برادرانہ تعلقات کو اجاگر کیا جو مشترکہ عقیدے، تاریخ اور ثقافت پر مبنی ہیں اور پارلیمانی تبادلوں، عوامی رابطوں اور کھلاڑیوں، ماہرین تعلیم، فنکاروں، طلبا وغیرہ کے مابین روابط کے ذریعے تعلقات کو فروغ دینے کی حوصلہ افزائی کی۔

اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان پہلا براہ راست سمندری رابطہ اس وقت قائم ہوا جب ایک مال بردار بحری جہاز کراچی سے چٹاگانگ بندرگاہ پہنچا۔

اس کے بعد بنگلہ دیش نے پاکستان سے 25 ہزار ٹن اعلیٰ معیار کی چینی خریدی، جیسا کہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں شائع ہونے والی اشاعت میں بتایا گیا تھا کہ ڈھاکہ عام طور پر بھارت سے چینی درآمد کرتا رہا ہے۔

مشترکہ اقتصادی مفادات کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھارتی جارحیت سے متعلق باہمی خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ رواں ماہ کے اوائل میں ایک ہندوتوا گروپ کے تقریباً 50 ارکان نے بھارت کی شمال مشرقی ریاست تریپورہ میں واقع بنگلہ دیشی قونصل خانے میں گھس کر بنگلہ دیشی پرچم کی گرا دیا تھا۔

مزید پڑھیں:بنگلہ دیش کا حسینہ واجد کے بیانات اور میڈیا پروپیگنڈے پر بھارت سے احتجاج

اس واقعے پر ڈھاکہ کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا تھا جس میں نئی دہلی پر زور دیا گیا تھا کہ وہ مظاہرین کے خلاف فوری کارروائی کرے۔

سیاسی جماعتوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر یونس نے ملک کے سیاست دانوں پر زور دیا کہ وہ اختلافات کو دور رکھیں اور ’بھارتی جارحیت‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متحدہ محاذ تشکیل دیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئے بنگلہ دیش کی تعمیر کی ہماری کوششوں کو کمزور کر رہے ہیں اور فرضی کہانیاں پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ افواہیں خاص ممالک اور بااثر پلیئرز کے درمیان پھیلائی ہیں۔

ڈاکٹر یونس نے مزید کہا کہ یہ معاملہ ‘ہمارے وجود کے لیے سوال’ ہے اس لیے غلط معلومات پھیلانے کی مہم کے خلاف اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp