سانحہ اے پی ایس کے 10 سال: ’ہماری زندگی آج بھی 16 دسمبر پر رکی ہوئی ہے‘

پیر 16 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پشاور کے ہائی سیکیورٹی زون ورسک روڈ پر واقع مسلح افواج کے زیر انتظام آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر دہشتگردوں کے حملے کو آج 10 سال مکمل ہو گئے ہیں، لیکن اس سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ اس دن کے بعد سے ان کی زندگیوں میں خوشیاں ہی ختم ہو گئی ہیں۔

سانحہ اے پی ایس کے شہدا بچوں کے والدین آج بھی ایک جگہ بیٹھ کر اپنے بچوں کو یاد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو تسلی دے کر اپنا غم بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اے پی ایس سانحہ: شہید بچوں کے والدین کی عید کیسی ہوتی ہے؟

شہیر خان بھی آرمی پبلک اسکول کے شہدا میں شامل ہیں، جو 2014 میں آج کے دن ہی خوشی خوشی علم کی شمع جلانے نکلے تھے لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئے مگر ان کے نام کی شمع آج بھی روشن ہے۔ شہیر کے والد اور والدہ کوشش کے باوجود بھی اس دن کو بھلا نہیں پارہے، شہید شہیر کے والد طاہر خان کہتے ہیں کہ ان کی زندگی 16 دسمبر 2014 پر ہی رکی ہوئی ہے، دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ان کے زخم دوبارہ تازہ ہو جاتے ہیں۔

’ہم اس دن کو کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی بھول نہیں پائے ہیں، ہماری حالت اور کیفیت کوئی دوسرا شخص شاید کبھی نہیں سمجھ پائے گا۔‘

یہ بھی پڑھیں: ’ہر شہید کے نام پر درخت‘، ترکیہ میں قائم  اے پی ایس شہدا کی منفرد یادگار

طاہر خان نے بتایا کہ 16 دسمبر 2014 کو ان کے رشتہ دار نے انہیں فون کرکے بتایا کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں نے حملہ کر دیا ہے۔ ’جب مجھے فون پر حملے کا بتایا گیا تو میں نے کہا وہ آرمی اسکول ہے اور آرمی تعنیات ہے، اس میں فکر والی بات کیا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں، ’جب میں اسکول گیٹ تک پہنچا تو وہاں صورت حال مختلف تھی اور وہاں مسلسل فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں، اس وقت وہاں جو صورت حال تھی میں وہ بیان نہیں کرسکتا، چیخ و پکار، فائرنگ، دہشتگردوں کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔‘

یہ بھی پڑھیں: سانحہ آرمی پبلک اسکول: بڑھاپے کے سہاروں کو کندھا دینے والے بدقسمت والدین ہر ماہ اکٹھے کیوں ہوتے ہیں؟

طاہر خان نے کہا، ’وہاں جو کچھ دیکھا وہ سب دل پر نقش ہے، اس غم کو اب اپنے ساتھ قبر میں لے کر جائیں گے، ہم نارمل نہیں ہیں، عام لوگوں کو جو خوشی محسوس ہوتی ہے وہ ہماری زندگی میں نہیں ہیں۔‘ طاہر خان کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی موجود تھیں، ان کی نم آنکھوں سے ان کی غم کی شدت کا اندازہ ہورہا تھا۔ شہیر شہید کی والدہ نے بتایا کہ اب غم اور آنسو ان کی زندگی مقدر بن گئے ہیں اور بس اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔

’بس دن گزر رہے ہیں، لگ نہیں رہا ہے کہ 10 سال ہوگئے ہیں، ان 10 برسوں میں ہم ایک سیکنڈ بھی اپنے بچے کو بھول نہیں پائے۔‘

سانحہ اے پی ایس میں شہید والے بچوں کے والدین انصاف نہ ملنے کا شکوہ بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلسل کوششوں اور مظاہروں کے بعد جوڈیشیل انکوائری کا فیصلہ ہوا، لیکن اس کا بھی کچھ فائدہ نہیں ہوا۔

16 دسمبر 2014: سانحہ اے پی ایس

یہ منگل کا دن تھا۔ اس روز پشاور کے ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا۔ دہشتگرد سرکاری اہلکاروں کی وردیوں میں ملبوس 6 دہشتگرد دیوار پھلانگ کر اسکول میں داخل ہوئے اور ننھے بچوں کو نشانہ بنایا۔ واقعہ کے فوری بعد سیکیورٹی فورسز کے دستے وہاں پہنچ گئے اور آپریشن شروع کردیا۔ دہشتگردوں کے اس حملے میں 144 ننھے بچوں سمیت 147 افراد شہید ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ آرمی پبلک اسکول: شہید طلباء کے والدین کی سپریم کورٹ سے کیس کی سماعت کی استدعا

دہشتگردی کے اس واقعہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے پشاور کا دورہ کیا اور خصوصی اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان تشکیل دے کر دہشتگردوں کے خلاف کلین اپ آپریشن کا فیصلہ کیا۔ غم سے نڈھال والدین کو مکمل یقین دہائی کرائی گئی کہ انہیں انصاف ملے گا اور ایک بھی دہشتگرد کو نہیں چھوڑا جائے گا۔

صدر اور وزیراعظم کا اے پی ایس پشاور کے شہدا کو خراج عقیدت

صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان سے دہشتگردی کے ناسورکے مکمل خاتمے تک اس کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے پختہ عزم کا اظہار کیا ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے کی 10 ویں برسی کے موقع پر اپنے پیغامات میں صدر مملکت نے کہا کہ 16 دسمبر کا دن قوم کی اجتماعی یادداشت پرانمٹ نقوش چھوڑ گیا، جب دہشتگردوں نے ہمارے بچوں کو بے دردی سے قتل کیا۔ آصف علی زرداری نے معصوم بچوں کے ورثا سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ دن دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قوم کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس جیسے واقعات سے دہشت گردوں اور خوارج کا اصل چہرہ بے نقاب ہوتا ہے اور پاکستانی قوم دہشتگردوں کو ان کے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔

یہ بھی پڑھیں: معاشی ترقی کے لیے دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ناگزیر ہو چکا، وزیر اعظم شہباز شریف

اپنے پیغام میں وزیراعظم نے ایک پرامن اور محفوظ پاکستان بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا جہاں کسی بے گناہ کو بربریت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور تمام مجرموں کو ان کے جرائم کی مثالی سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم بزدل دہشتگردوں کے خلاف فولاد کی دیوار بن کر کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی۔ انہوں نے قوم کو یاد دلایا کہ خوارج اور ریاست مخالف عناصر کے فتنے کا مذہب یا معاشرتی اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ جیت کر ہی دم لیں گے، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کی 10ویں برسی پر اپنے پیغام میں کہا کہ اس سانحے کا دکھ آج بھی دلوں میں زندہ ہے، 16 دسمبر 2014 کی سیاہ صبح ہر پاکستانی کے دل پر نقش ہے، دہشتگردوں نے 147 معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کو سفاکیت کا نشانہ بنایا۔ مریم نواز شریف نے کہا کہ ننھے طلبا جو علم کی روشنی سے اس ملک کے مستقبل کو روشن کرنا چاہتے تھے، درندگی کی نذر ہوگئے۔ سانحہ 16 دسمبر صرف اسکول پر ہی نہیں بلکہ انسانیت، تعلیم اور پاکستان کے روشن مستقبل پر حملہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ معصوم طلبا اور اساتذہ کی قربانی نے ہمیں یہ سبق دیا کہ دہشتگردی کا خاتمہ ہر صورت ناگزیر ہے، اے پی ایس شہدا ہماری قوم کے ہیرو ہیں، سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین اور اہل خانہ کا حوصلہ اور صبر قابل تحسین ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس کے 147 شہدا کا خواب بہتر پاکستان تھا، ہماری ذمہ داری ہے کہ اس خواب کو حقیقت میں بدلیں، دہشتگردی کے خلاف جنگ جیت کر ہی دم لیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp