وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کی معاشی ترقی کے لیے دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ناگزیر ہے، حکومت اور افواج پاکستان دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں، بلیو اکنامی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، دوست ملک چین بھی پاکستان کے گہرے پانیوں میں وسائل کی تلاش میں پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے، وزیراعظم شہباز شریف
جمعہ کو وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے پاکستان نیوی وار کالج میں ساتویں میری ٹائم سیکیورٹی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک کو دہشتگردی کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، 2018 میں ہم نے دہشتگردی کا خاتمہ کر دیا تھا، لیکن بدقسمتی سے دہشتگردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اس وقت معاشی چیلنجز کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی کے چیلنجز کا سامنا ہے، پاک افواج سرحدوں اور پاک نیوی گہرے پانیوں کی حفاظت کر کے ملک کو محفوظ بنا رہی ہیں، ہم اگر ملک کی معیشت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سب سے پہلے ملک سے دہشتگردی کے ناسور کو ختم کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں فول پروف سیکیورٹی چاہتے ہیں تاکہ لوگ اپنی صلاحیتوں سے استفادہ کر سکیں، پاک بحریہ ہر طرح کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
مزید پڑھیں:ملکی معیشت مستحکم، دھرنوں کی وجہ سے ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی، وزیراعظم شہباز شریف
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے ہوتے ہوئے پاکستان معیشت اور تجارت کے شعبوں میں مزید ترقی نہیں کر سکتا۔ ایک بات واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ 2018 تک ہمارے بہادرفوجی جوانوں، ہمارے عام شہریوں، کے پی، بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں دہشتگردی کو شکست دے تھی اس میں سب نے تعاون کیا، ہمارے 80 ہزار لوگ شہید ہوئے اور ہمیں 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا اور بدقسمتی سے اس میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نیوی بلیو اکنامی کے لیے اقدامات کر رہی ہے، موجودہ دور میں کسی بھی معیشت کے لیے ’بلیو اکنامی‘ مرکزی حیثیت رکھتی ہے، چند دن قبل چین سے پیغام ملا کہ ایک وفد پاکستان بھیج رہے ہیں جو گہرے پانیوں میں وسائل کی تلاش میں پاکستان کی مدد کرے گا، یہ وفد جہاز سازی میں پاکستان کی مدد کے علاوہ بندرگاہوں کو سافٹ بنانے اور آپریشنل بنانے میں بھی پاکستان کی مدد کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں ہماری فورسز نے بہترین حکمت عملی اپنا کر احتجاج کا خاتمہ کیا، شہباز شریف
وزیر اعظم نے کہا کہ اب دوست ملک چین بھی بحری شعبے میں پاکستان سے بھرپور تعاون کے لیے تیار ہے اور ہمیں ان کے لیے فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنا ہو گی اور پاکستان کی شپنگ صورت حال پر توجہ دینا ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کو جدید تقاضوں کے مطابق لوڈنگ اور ان لوڈنگ پر توجہ دینا ہو گی، کراچی پورٹ ٹرسٹ کا کام رئیل اسٹیٹ نہیں، کاروبار کی سہولت دینا ہے۔ پاکستان شپنگ کارپوریشن کا آج جو حال ہے، ہمیں اس کا جائزہ لینا ہو گا۔کے پی ٹی کا کام رئیل اسٹیٹ کا نہیں، کاروبار کے لیے سہولیات کی فراہمی ہے۔
یہ کہنا کافی ہے کہ ہمیں نہ صرف گوادر بلکہ پورے بلوچستان کے طول وعرض میں بلکہ پورے پاکستان میں ایسی سلامتی چاہیے جہاں پاکستانی عوام کو امن اور سکون ملے تاکہ وہ پاکستان کی فلاح و بہبود کو فروغ دینے کے لیے اپنی توانائیاں اورصلاحیتیں بروئے کار لائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم نے حال ہی میں اپیکس کمیٹی کے مختلف اجلاس منعقد کیے ہیں اور مختلف سطحوں پر حکومت پاکستان مسلح افواج اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کردہشتگردی کی اس لعنت کا مکمل عزم کے ساتھ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں، ایک فتنہ ہے، وزیر اعظم شہباز شریف
انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان ملک کے دفاع، پاکستان کے امن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے بہت بڑی قیمت ادا کرتی ہیں اور اس میں ان کے بچے پاکستان میں لاکھوں بچوں کو یتیم ہونے سے بچانے کی کوشش میں یتیم ہو جاتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ ہماری سب سے بڑی مثال ہے جس کی موجودہ دور میں مثال نہیں ملتی کہ جہاں پاکستانی فوجیوں، افسران، عام شہریوں، ڈاکٹروں، انجینئروں، ماؤں اور بچوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ اور اسے مکمل طور پر شکست دینے کے لیے پاکستان کا اس سے بڑا اظہاریا عزم نہیں ہو سکتا۔
ایک وقت تھا جب پاکستان شپنگ کارپوریشن ایک پھلتا پھولتا کاروبارتھا اورآج جیسا کہ آپ نے اسکرین پر دیکھا کہ ان کے پاس صرف 12 تجارتی جہاز ہیں اورجوانہوں نے اسکرین پر نہیں دکھایا وہ ان تمام 12 جہازوں کی قیمت ہے۔ اس سے پاکستان کو پہنچنے والا نقصان ناقابل برداشت اور تصور سے بھی زیادہ ہے۔
مزید پڑھیں:معاہدوں پر فوری عمل درآمد کرائیں گے، شہباز شریف اور بیلا روسی صدر کی مشترکہ پریس کانفرنس
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کی وجوہات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اس کا یہ حال کیوں ہوا ہے، اس سال جولائی کے مہینے میں جب میں نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کا دورہ کیا تو مجھے بھاری دل کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ اور ان کے حکام نے مجھے پہلی سلائیڈ دکھائی کہ کس طرح کراچی پورٹ کے قریب زمین کا ایک ٹکڑا تیار کیا جائے اور اسے رئیل اسٹیٹ میں تبدیل کیا جائے اورپھر اس سے اربوں روپے کمائے جائیں۔ میرا سوال یہ تھا کہ کیا ہم کراچی پورٹ ٹرسٹ پر توجہ دے رہے ہیں یا ہم رئیل اسٹیٹ کی ترقی کے کاروبار میں ہیں؟
وزیر اعظم نے کہا کہ میرے خیال میں یہ ایک پیچیدہ سوال ہے جو ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا ہے اور سنجیدہ اور مخلصانہ خود جائزہ لینا ہے۔ یہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کا کام ہے کہ وہ رئیل اسٹیٹ کو ترقی دے یا اپنے شپنگ کاروبارکو وسعت دے، درآمد کنندگان کو بہترسہولیات فراہم کرے، برآمد کنندگان کو وہاں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ سہولیات فراہم کرے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب جیسے ملک کیا سوچیں گے کہ پاکستانی سیاستدان کیسے ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف
ان کا کہنا تھا کہ آج اگرآپ پڑوس میں کچھ بندرگاہوں کو دیکھتے ہیں تووہ دنیا بھر میں عالمی معیار کی بندرگاہیں ہیں۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے اس کمرے میں اور باہر پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ذہین ترین دماغوں سے نوازا ہے۔ بینکرز، انٹرپرینیورز، ڈاکٹرز، انجینئرز سمیت اس ملک میں سب کچھ دستیاب ہے. اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود رحمت سے پاکستان کو لامحدود قدرتی وسائل سے بھی نوازا ہے جن کی مالیت کھربوں ڈالر ہے اور پھر بھی آج ہم بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دب کر بہت کمزورہیں۔
آپ نے گزشتہ روز سنا ہوگا کہ سعودی عرب، جو پاکستان کا بہت پیارا اور مخلص دوست ہے، نے ایک بار پھر مزید ایک سال کے لیے 3 ارب ڈالر کے قرضے کی تجدید کر دی ہے۔ کیا اس طرح ہمیں واقعی اپنی زندگی گزارنی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کو سبق سکھانا اور دینا ہے یا راستہ بدلنا ہے؟ ۔