سابق و وزیر دفاع و وزیرا علیٰ اور عمران خان کے سابق قریبی ساتھی پرویز خٹک سے ایک بار پھر سیاست میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ اور ممکنہ طور پر جلد ہی ن لیگ میں شمولیت اختیار کرکے صوبے کی سیاست میں فغال نظر آئیں گے۔
پرویز خٹک کے قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ وہ جلد ہی وفاقی کابینہ کا حصہ بن جائیں گے اور اس ضمن میں وزیراعظم شہباز شریف بھی ملاقات ہو گی جو انھیں صوبے کے حوالے سے خصوصی ٹاسک بھی دے سکتے ہیں۔
پرویز خٹک کی ناراض بھائی کے ساتھ صلح
پرویز خٹک کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ پرویز خٹک اور ان کے بھائی لیاقت خٹک کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔ اور وہ پرویز خٹک کی سرپرستی میں کام کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ خاندانی ذرائع نے بتایا کہ پرویز خٹک اور ان کے بھائی لیاقت خٹک میں اختلافات پرویز خٹک کے وزیراعلی کے دور سے تھے۔ اور پی ٹی آئی کے گزشتہ دور حکومت میں اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ اصل اختلافات بھائیوں کے علاوہ ان کے بچوں کا بھی تھا۔ جو صوبائی اسمبلی کی نشست پر ایک دوسرے کے مخالف تھے۔
ان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ پرویز خٹک سیاست سے دوری کے اعلان کے بعد خاندانی معاملات کو درست کرنے میں مصروف تھے اور آخر کار بھائی کو منانے میں کامیاب ہو گئے۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے پرویز خٹک نے بھائی سے طویل مشاورت کی تھی جس کے بعد ان کے بیٹے بھی اختلافات کو بھلا کر ایک ہو گئے ہیں۔
کیا پرویز خٹک اب ن لیگ میں شمولیت اختیار کرنے جا رہے ہیں؟
چند دن پہلے پرویز خٹک نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کی تھی جس کے بعد پرویز خٹک کے دوبارہ سیاست میں سرگرم ہونے کی خبروں کی تصدیق ہوئی تھی۔ حالات سے باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار پر پرویز خٹک کو نئے ٹاسک کے ساتھ میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ان کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پرویز خٹک باقاعدہ وفاقی کابینہ کا حصہ بن جائیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ پرویز خٹک جلد وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کریں گے۔ قریبی حلقوں نے بتایا کہ پرویز خٹک نے ن لیگ میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چند دنوں میں ان کے بھائی لیاقت خٹک باقاعدہ ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کریں گے اور اس کے بعد پرویز خٹک خود بھی کریں گے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ ن لیگ نے صوبائی صدر امیر مقام کی تجویز پر پرویز خٹک کو باقاعدہ شمولیت کی دعوت دی ہے۔ اس سلسلے میں امیر مقام اور پرویز خٹک کی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔
کیا پرویز خٹک کی انٹری سے پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم ملے گا؟
سیاسی منظرنامے سے باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ ن لیگ خیبر پختونخوا میں پارٹی کو مضبوط کرنا چاہتی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ صوبے میں پی ٹی آئی کے اثر کو کم کیا جائے۔ جس کے لیے اب پرویز خٹک کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت پرویز خٹک کے ذریعے صوبے میں حریف جماعت پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے۔ ان کے مطابق صوبائی حکومت دھرنوں میں مصروف ہے اور ترقیاتی کاموں کے لیے وقت اور فنڈز کا ایشو ہے جبکہ وفاق اب براہ راست صوبے میں کام کرنا چاہتا ہے۔
پرویز خٹک کی سیاست پر نظر رکھنے والے نوشہرہ سے نوجوان صحافی شہاب الرحمان کا خیال ہے کہ پرویز خٹک کو عام انتخابات کے لیے بھی یہی ٹاسک دے کر لانچ کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا، سب کو پتہ ہے۔
‘پرویز خٹک سیاست سے اور اپنی ہی بنائی ہوئی جماعت پی ٹی آئی پی سے اس وقت سخت مایوس ہوئے جب نوشہرہ کینٹ میں جنرل کونسلر کی نشست پر ان کی جماعت کو بُری شکست ہوئی۔‘
شہاب الرحمان کا ماننا ہے کہ پرویز خٹک ایک سمجھدار سیاست دان ہیں لیکن اس وقت صوبے میں ان کے لیے حالات شاید سازگار نہیں ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اس وقت سیاسی حالات پہلے سے مختلف ہیں، صوبے میں پی ٹی آئی کا زور ہے اور عمران خان کی رہائی کے لیے ماحول بنا ہوا ہے۔‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ بطور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بہترین کام کیا۔ اور اگر ان کو دوبارہ موقع ملا تو وہ اب بھی ڈلیور کریں گے۔’
انھوں نے بتایا کہ نوشہرہ کی حد تک پرویز خٹک کا ووٹ بینک ہے۔ ان حالات میں بھی لوگ ان کے ساتھ ہیں لیکن پورے صوبے میں ان کا شاید اتنا اثرو رسوخ نہ ہو۔
دوسری طرف صحافی و تجزیہ کار عارف حیات کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک اب صوبے کے سیاسی منظر نامے سے باہر ہیں اور واپس جگہ بنانا شاید ان کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق پرویز خٹک پی ٹی آئی کی وجہ سے ہی کامیاب تھے اور نئی جماعت بنانے کے بعد انھیں اس کا بخوبی اندازہ ہو گیا تھا۔ انھوں نے کہا عام انتخابات سے پہلے پرویز خٹک کا پورا خاندان اقتدار میں تھا تاہم پی ٹی آئی چھوڑنے کے بعد وہ خود ایم این اے تک نہ رہے۔
‘پرویز خٹک اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہیں، جب ضرورت ہو گی انھیں سامنے لایا جائے گا اور جب ضرورت نہیں ہوگی تو وہ منظرعام سے غائب رہیں گے۔ وہ اس کھیل کے کھلاڑی ہیں۔’
ان کے مطابق پرویز خٹک کے ذریعے صوبے میں پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینا شاید مشکل ہے۔ ہاں وہ اس بہانے وفاقی کابینہ میں شامل ضرور ہو سکتے ہیں۔