حکومت نے خزانے پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کے بوجھ میں کمی کے لیے کفایت شعاری مہم شروع کی جس کے بعد دیگر اداروں کی طرح قومی احتساب بیورو (نیب) نے بھی اپنے ادارے میں رائٹ سائزنگ کا فیصلہ کرتے ہوئے گریڈ ایک سے 19 تک کی کل 238 آسامیاں ختم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ گریڈ 19 کی ایڈیشنل ڈائریکٹر کی 2، گریڈ 17 کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی 58، گریڈ 15 کی ڈیٹا کنٹرول اسسٹنٹ کی 1 اور اسسٹنٹ کی 12 آسامیاں ختم کی گئی ہیں۔
نیب ادارے کے اس بڑے فیصلے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف 190 ملین کیس کے فیصلے کے بعد نیب کو ختم ہی کر دیا جائے گا، جبکہ نیب کے افسران کو اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کے سپرد کر دیا جائے گا۔
ہر دور حکومت میں اپوزیشن کی جانب سے نیب پر شدید تنقید کی جاتی ہے اور اسے بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے، نیب کیسز کی بنیاد پر وزراء اعظم کو سزائیں بھی دی جاتی ہیں تاہم کچھ عرصے بعد حکومتوں کے بدلتے ہی بری کر دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس: نیب نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ نیب کے ادارہ نے اب تک کتنی ریکوری کی ہیں، اس وقت کون سے اہم کیسز زیر سماعت ہیں اور تجزیہ کاروں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا نیب کا ادارہ ختم ہو سکتا ہے؟
نیب نے اپنے قیام سے اب تک مجموعی طور پر 6 ہزار 135 ارب روپے کی ریکوری کی ہے، اس میں 101 ارب سے زائد کی پلی بارگین، 10 ارب روپے کے بینک لون ڈیفالٹ سے حاصل رقم، 21 ارب روپے کی جائیداد ضبط، 1 ارب روپے کے جرمانے، 2 ارب روپے بطور سیٹلمنٹ ریکوری کی ہے۔
نیب نے 7 سابق وزرائے اعظم، 14وزرائے اعلیٰ، 78 وزرا، 176 ایم پی اور 114 افسران کے خلاف کیسز اور انکوائریوں کا آغاز کیا، کچھ ملزمان کو سزائیں بھی نہ ہو سکی جبکہ جن کو سزائیں ہوئیں ان کو بری کردیا گیا۔
سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے انسداد کرپشن پروگرام کا دستخط کنندہ ہے اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں کرپٹ لوگوں کو سزائیں دینے کے لیے اور ملک میں کرپشن کو روکنے کے لیے پھر خود مختار اور غیر سیاسی آزاد ادارہ ہو اس لیے نیب جیسا ادارہ پاکستان کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے آخری دم تک لڑیں گے، ڈپٹی چیئرمین نیب
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو جو بیرون ملک سے قرضہ ملتا ہے یا جو امداد ملتی ہے وہ پہلے دیکھتے ہیں کہ کیا اس ملک میں ایسا کوئی ادارہ ہے جو کرپشن کی نشاندہی کرے یا کرپشن کرنے والوں کو کے خلاف کوئی کارروائی کرے اگر ایسا ادارہ نہیں ہوگا تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو ملنے والی امداد بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
عمران شفیق نے کہا کہ ضروری نہیں ہے کہ نیب کے ادارے سے ہی سب کام لیے جائے نیب چونکہ اب ایک بدنام ادارہ اور سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہونے والا ادارہ بن کر سامنے آیا ہے، اس کا حکومت نے نئی ترامیم کے تحت نیب کے اختیارات کو کافی حد تک محدود کر دیا ہے اور صرف ایک برائے نام ادارہ رہ گیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس ادارے کو ختم کر کے ایک نیا ادارہ بنا دیا جائے جو آزاد اور خود مختار ہو، اب تو نیب کو پاس کسی بھی ملزم کو گرفتار کرکے تحقیقات کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے۔ میرے خیال میں نیب کو اگر ختم کیا جائے گا تو نہ تو عدالت یا سپریم کورٹ کی جناب سے کوئی اعتراض کیا جائے گا اور نا ہی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے۔
عمران شفیق نے کہا کہ نیب کا ادارہ اپنے 25 سال کا عرصہ مکمل کر چکا ہے اس عرصے میں کوئی بھی ادارہ بہت مضبوط ہو جاتا ہے لیکن نیب کے ادارے میں کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے نیب کو کمزور کیا ہوا ہے نیب کے کچھ بیوروکریسی میں ایسے لوگ ہیں جو کہ نیب کو ایک بہتر ادارہ بننے دیں گے۔ ادارے میں غیر جانبدار لوگوں کو شامل کیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ یہ ادارہ کچھ بہتر کر سکے۔
مزید پڑھیں: ’برین ڈرین مسئلہ نہیں بلکہ پیسہ ملک سے باہر جانا مسئلہ ہے‘، چیئرمین نیب تنقید کی زد میں
سینئر تجزیہ کار انصار عباسی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا نیب کی جو آسامیاں ختم کی گئی ہیں یہ رائٹ سائزنگ کے تحت کی گئی ہے لیکن ابھی تک نیب کے ادارے کو ختم کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے ایک بات ضرور ہے کہ جب سے نیب کے ادارے کا قیام کیا گیا ہر کسی کو یہ معلوم ہے کہ اس ادارے کو سیاسی انجینئرنگ اور اپوزیشن کے خلاف کیسز بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب نے سیاست دانوں کے علاوہ سول بیوروکریسی کو بھی ہراساں کیا کاروباری شخصیات کو بھی ہراساں کیا جس کی وجہ سے سول بیوروکریسی اور کاروباری شخصیات نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا جس سے پاکستان کا بہت نقصان ہوا۔
انصار عباسی نے کہا کہ مختلف سیاسی جماعتیں ہیں اپنے دور حکومت میں یہ بھی کہتی رہی کہ نیب کو ختم کیا جائے گا لیکن نیب کو ابھی تک ختم نہیں کیا جا سکا ہے، سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور میں نیب کو استعمال کیا اور نواز شریف فیملی اور مسلم لیگ نون کے خلاف بہت سے کیسز بنائے اور ان کو سزائے دلوائی اس وقت نیب سے بہت شکایات تھی لیکن اب عمران خان کو نیب سے شکایات ہیں میرے خیال ہے کہ نیب کے ادارے کو اس لیے ختم نہیں کیا جائے گا کہ یہ سیاسی جماعتوں کے پاس ایک واحد ادارہ ہے کہ جس سے وہ اپوزیشن یا اپنے مخالفین کو حراساں کرتے ہیں اور ان کے خلاف گھیرا تنگ کرتے ہیں۔