انڈیا کے وقت کے مطابق جمعرات کی شام آٹھ بجے سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائینسز میں داخل کیا گیا جہاں وہ 92 سال کی عمر میں زندگی کی بازی ہار گئے، دنیا انہیں موجودہ بھارتی معیشت کا کلیدی معمار سمجھتی ہے۔
کانگریس پارٹی سے وابستہ ڈاکٹر منموہن سنگھ 2004 سے 2014 تک انڈیا کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے، وہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے 33 سال تک رکن رہنے کے بعد رواں برس اپریل میں سبکدوش ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ انتقال کرگئے
لبرلائزیشن کے بعد بھارت کی اقتصادی ترقی کو سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی اہم شراکت کو تسلیم کیے بغیر سراہا نہیں جا سکتا، ان کا یہ سفر ملک کے 13ویں وزیر اعظم کے طور پر عہدہ سنبھالنے سے بہت پہلے شروع ہوا تھا۔
جب ہندوستان کو ادائیگیوں میں توازن کے بحران کا سامنا تھا، ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بحیثیت وزیر خزانہ اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے ساتھ لبرلائزیشن کے ذریعے معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔
مزید پڑھیں: امریکا میں اڈانی گروپ کیخلاف فردجرم، بھارتی معیشت پر سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہورہا ہے؟
1991 سے 1996 تک وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے وزیر خزانہ کے طور پر من موہن سنگھ نے ہندوستان کی معیشت کو آزاد کرنے میں اہم کردار ادا کیا، انہوں نے لائسنس کی حکمرانی کو کم کرتے ہوئے ضابطوں کو ہموار کیا، جس سے صنعتوں میں حکومتی مداخلت کو نمایاں طور پر کم کرنے کا موقع ملا۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ نے تجارتی اصلاحات، درآمدی محصولات کو کم کرنے اور کھلی منڈی کی معیشت کی جانب پیش رفت متعارف کرائی، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اہم اصلاحات، جن سے ہندوستان مسلسل فائدہ اٹھا رہا ہے، انہی کی قیادت میں متعارت کرائی گئی تھیں۔
مزید پڑھیں: بھارت کے ساتھ بگڑے تعلقات کو سنوارنے کی ضرورت ہے، نواز شریف
من موہن سنگھ کی زیر نگرانی بھارتی روپے کی قدر میں کمی نے ہندوستانی برآمدات کو زیادہ مسابقتی بنانے میں مدد کی، جس سے برآمدی صلاحیت میں اضافہ ہوا، ان کی متعارف کرائی گئیں ٹیکس اصلاحات نے ٹیکس کے ڈھانچے کو آسان بناتے ہوئے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کیا۔
24 جولائی 1991 کو وزیر خزانہ کے طور پر پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر من موہن سنگھ نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ استحکام کے اقدامات اور ضروری ڈھانچہ جاتی اور پالیسی اصلاحات کے کامیاب نفاذ کے بعد، ملکی معیشت بلند پائیدار ترقی کی راہ پر واپس آئے گی۔
مزید پڑھیں:انڈیا کا سرکاری نام بھارت میں تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
جب انہوں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو ملک نے مسلسل اقتصادی ترقی کا تجربہ کیا، بھارت نے اپنی پہلی میعاد کے دوران 7 فیصد کی اوسط شرح نمو حاصل کی، آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق، 2004 سے 2014 تک ہندوستان کی جی ڈی پی کی اوسط شرح نمو تقریباً 6.7 فیصد رہی۔
وزیر اعظم کے طور پر ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت میں حکومت نے جارحانہ اقدامات کیے، ریزرو بینک آف انڈیا نے مالیاتی پالیسی میں تیزی سے نرمی کی اور حکومت نے گھریلو مانگ کو بڑھانے کے لیے مالیاتی محرک متعارف کرایا۔
مزید پڑھیں: بھارتی قوم ایک ہفتے میں کتنے گھنٹے کام کرنا چاہتی ہے؟
ڈاکٹر من موہن سنگھ کو مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ جیسی اصلاحات، جس کا مقصد روزگار فراہم کرتے ہوئے دیہی غربت کو کم کرنا تھا، متعارف کرانے کے باعث ایک سوشلسٹ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، اس اسکیم کے تحت دیہی گھرانوں کے ایک فرد کو 100 دن تک کام کی ضمانت سے روزگار میں نمایاں بہتری آئی۔
بھارت میں آج کے ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر سسٹم کی کامیابی اور فلاحی اسکیموں میں لیکج کو کم کرنے کا سہرا من موہن سنگھ کے آدھار پروجیکٹ کو شروع کرنے کی پہل سے لگایا جاسکتا ہے، یہ منصوبہ بعد میں مالی شمولیت اور فلاح و بہبود کی تقسیم کے لیے سنگ بنیاد بن گیا۔
مزید پڑھیں:این ڈی اے بمقابلہ انڈیا: بھارت میں نریندر مودی کے خلاف بڑا اپوزیشن اتحاد قائم
ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بھارت اور امریکا سول نیوکلیئر معاہدے پر بات چیت کرنے، سویلین مقاصد کے لیے جوہری توانائی کو کھولنے میں بھی اہم کردار ادا کیا، یکم اگست 2008 کو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز نے بھارت کے حفاظتی معاہدے کی منظوری دی، جس سے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارت کے داخلے کی راہ ہموار ہوئی۔
جوہری توانائی کے بارے میں ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سول نیوکلیئر اقدام ہندوستان سمیت دنیا کے لیے اچھا ہے۔ ’جیسے جیسے ہم پائیدار ترقی اور توانائی کی سلامتی کے اپنے ہدف کی طرف بڑھیں گے، جوہری توانائی کا پرامن استعمال بڑھتا ہوا اہم کردار ادا کرے گا۔‘
مزید پڑھیں:جی 20: بھارت کیا چاہتا ہے؟
بحیثیت وزیر خزانہ اور وزیر اعظم دونوں عہدوں پر رہتے ہوئے ڈاکٹر من موہن سنگھ کا دور ہندوستان کے معاشی منظر نامے میں ایک تبدیلی کا دور تھا، ان کی دوررس پالیسیوں نے جدید ہندوستان کے معاشی عروج کی بنیاد رکھی تھی۔