’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘

اتوار 16 اپریل 2023
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بوبی گھوش امریکی صحافی ہیں۔ بھارت میں پیدا ہوئے، اب امریکی شہری ہیں۔ انہوں نے کیرئیرکا آغاز مشہور بھارتی انگریزی اخبار ’دکن کرانیکل‘ سے کیا۔

کچھ عرصہ پہلے تک معروف بھارتی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ کے ایڈیٹر ان چیف رہے۔ اس سے پہلے ایک امریکی بزنس ویب سائٹ کے مینجنگ ایڈیٹر رہے۔ بین الاقوامی انگریزی جریدے ’ٹائم‘ کے ساتھ طویل عرصے تک وابستہ رہے۔ ’ٹائم ایشیا‘ اور ’ٹائم یورپ‘ کے لیے بھی کام کرتے رہے۔ انہیں اعزاز حاصل ہے کہ وہ ’ٹائم‘ کی 85 سالہ تاریخ میں پہلے غیر امریکی ایڈیٹر (ورلڈ) بنے۔ عراق کے دارالحکومت بغداد میں ’ٹائم‘ کے بیوروچیف بھی رہے۔ وہاں رہ کر امریکا کے خلاف مسلح مزاحمت کاروں بالخصوص خودکش بمباروں کے انٹرویوز کرتے رہے۔ عراق کے غیر معمولی لوگوں اور سیاسی رہنماؤں کے انٹرویوز بھی کیے جو بہت مقبول ہوئے۔

بوبی گھوش نے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر خوب لکھا۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور امن ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں، یہی ان کے اندازِ فکر کی بنیادیں ہیں۔

اگست 2010ء میں ’ٹائم‘ میگزین نے ان کی ایک رپورٹ ’سرورق کی کہانی‘ کے طور پر شائع کی تھی، جس کا عنوان تھا: کیا امریکا اسلاموفوبیا کا شکار ہے؟ (’Is America Islamophobic‘)۔

یہ رپورٹ امریکا میں مساجد کے خلاف چلائی جانے والی متعصبانہ مہم کے تناظر میں لکھی گئی تھی۔ انہوں نے امریکی حکومت کو باور کرانے کی کوشش کہ یہ مساجد مخالف مہم دنیا بھر میں امریکا کے بارے میں تاثر کو خراب کر رہی ہے۔ لوگ سوچیں گے کہ امریکا مسلمانوں سے کیسا برتاؤ کر رہا ہے!

ان کی اپنی کہانی (پرسنل اسٹوری) حوصلہ، ہمت اور ولولہ عطا کرتی ہے لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں۔ آج کل وہ ’بلومبرگ اوپینیئن‘ میں کالم لکھتے ہیں اور ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل ہیں۔

گزشتہ دنوں انہوں نے ایک ٹویٹ کی، جسے پاکستان میں گنتی کے چند لوگوں ہی نے پڑھا ہوگا، حالانکہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں تھی۔ انہوں نے لکھا:

’پاکستانی قوم اب چوکنا اور ہوشیار ہوجائے کہ سابق امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد پاکستانی سیاست میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ جب بھی زلمے خلیل زاد نے کسی ملک کے بارے میں بتایا کہ وہاں کی سیاست کو کس انداز میں چلایا جانا چاہیے، پھر وہاں کیا کچھ ہوا، تاریخ بہت اچھی طرح سے دکھا سکتی ہے۔ اس لیے اب پاکستانیوں کو ڈرنا چاہیے بلکہ بہت زیادہ ڈرنا چاہیے‘۔

بوبی گھوش نے یہ ٹویٹ زلمے خلیل زاد کی 22 مارچ 2023ء کو لکھی گئی چند ٹویٹس کے جواب میں لکھی۔ زلمے نے لکھا تھا:

’ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات پاکستان کے سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے بحران کو مزید گہرا کریں گے۔ پہلے ہی بعض ممالک نے پاکستان میں سرمایہ کاری روک رکھی ہے، ایسے میں پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی حمایت بھی مشکوک ہے۔

’پاکستان کے بارے میں میری تشویش بڑھتی جارہی ہے تاہم امید ہے کہ پاکستانی سیاسی رہنما تباہ کن، گھٹیا سیاست سے اوپر اٹھیں گے جو قومی مفاد کو نقصان پہنچاتی ہے۔ وہ ایسا نہیں کریں گے تو امید ہے کہ سپریم کورٹ ایسے کھیل میں استعمال ہونے سے انکار کردے گی جو کھیل قوم کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

’ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمان، جس پر حکومتی اتحاد کا غلبہ ہے، سپریم کورٹ سے عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل اور پی ٹی آئی کو اگلے چند دنوں میں کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے۔ مذکورہ اقدامات کیے گئے تو پاکستان کے لیے بین الاقوامی حمایت میں مزید کمی آئے گی اور پاکستان میں سیاسی تقسیم اور تشدد بڑھنے کا خدشہ ہے۔‘

زلمے خلیل زاد اس سے پہلے بھی ایک دن پاکستان کی فکر میں کافی دبلے پتلے ہوئے تھے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ’عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں جاری سیاسی بحران مزید سنگین ہوجائے گا، سیاسی لیڈروں کو جیلوں میں ڈالنا، پھانسی پر لٹکانا یا قتل کرانا غلط روش ہے۔ میں پاکستان کی موجودہ صورتحال میں 2 تجاویز دیتا ہوں، اوّل: جون میں قومی سطح پر انتخابات کا اعلان کیا جائے تاکہ تباہی سے بچا جاسکے، دوم: اس وقت تمام سیاسی جماعتیں ملک کو بچانے اور استحکام، سلامتی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے مل بیٹھ کر مسائل کی نشاندہی اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں اور جو بھی الیکشن میں کامیاب ہو، جس کو بھی عوام کا مینڈیٹ حاصل ہوگا، اسے کام کرنے دیا جائے‘۔

بوبی گھوش کی طرف سے خبردار کیے جانے سے پہلے ہی زلمے خلیل زاد کے پاکستان کے لیے اس قدر زیادہ پریشان، متفکر ہونے پر کم از کم میرا ماتھا ٹھنکا تھا، وہ پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانی دکھائی دینے کی کوشش کر رہے تھے، ایسا میں سوچ آئیکہ’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘!

ساتھ ہی زلمے خلیل زاد کا سارا کیرئیر کسی ڈاکومنٹری فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چلنے لگا۔ جب امریکی صدرجارج ڈبلیو بش افغانستان اور عراق میں آگ اور خون کا کھیل کھیلنے میں مصروف تھے، تب زلمے خلیل زاد اس کھیل کا حصہ تھے اور انہوں نے پہلے افغانستان، پھر عراق میں امریکی سفیر کے طور پر اپنا کام پورے جوش و جذبے سے سرانجام دیا۔

افغان صوبہ ہرات میں پیدا ہونے والے زلمے ابھی کابل میں پڑھ رہے تھے کہ امریکا نے انہیں پسند کرکے گود لے لیا، پالا پوسا اور جوان کیا۔ پھر یہ ان امریکی بھیڑیوں کے غول کا حصہ بنے جو پہلے افغانستان میں انسانوں کو چیرتے پھاڑتے رہے، پھر عراق میں۔ یہ ان لوگوں میں شامل تھے جو نہایت واضح انداز میں کہتے تھے کہ پوری دنیا پر امریکا کی حاکمیت ہونی چاہیے۔ اس موضوع پر ان کے مضامین اور تقاریر موجود ہیں۔ گوگل کیجیے اور ان کی باتیں پڑھیے، سنیے، آپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔

یہ زلمے خلیل زاد ہی تھے جنہوں نے 26 مارچ 1998ء کو، اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے نام ایک خط میں تجویز دی تھی کہ عراق کے صدر صدام حسین کے خلاف بھرپور طاقت استعمال کرکے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ ان کا یہی اندازِ فکر افغانستان کے بارے میں تھا اور پاکستان کے بارے میں بھی وہ خاصے زہریلے انداز میں سوچتے، بولتے اور لکھتے تھے۔

آپ ان کی تحاریر، تقاریر، بیانات اٹھاکر دیکھ لیجیے، آپ کو ان کی آنکھوں اور زبان سے شعلے لپکتے دکھائی دیں گے۔ جب ایسا شخص پاکستان کی فکر میں ہلکان دکھائی دینے کی کوشش کرے تو خطرے کی گھنٹیاں زور و شور سے بجیں گی۔

امریکا میں مسلمانوں کے خلاف خطرناک مہم کو روکنے کی کوشش کرنے والے بوبی گھوش درست ہی کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کو چوکنا اور ہوشیار ہونا چاہیے، ڈرنا چاہیے بلکہ بہت زیادہ ڈرنا چاہیے کہ زلمے خلیل زاد پاکستانی سیاست میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp