شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود سعودی عرب کے موجودہ 7ویں بادشاہ اور خادم الحرمین الشریفین ہیں۔ وہ 31 دسمبر 1935 کو ریاض میں پیدا ہوئے اور بانی مملکت شاہ عبدالعزیز ابن سعود کے 25ویں صاحبزادے ہیں۔ شاہ سلمان کی ابتدائی زندگی ریاض میں گزری جہاں انہوں نے قرآن پاک مکمل حفظ کیا اور عربی زبان وادب میں مہارت حاصل کی۔ ان کی تعلیم نے انہیں سیاسی اور انتظامی امور گہرائی سے سمجھنے میں مدد دی۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن: کس ادارے کی کیسی کارکردگی رہی؟
شاہ سلمان نے سنہ 1954 میں ریاض کے نائب گورنر کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ سنہ 1955 میں وہ ریاض کے گورنر مقرر ہوئے اور سنہ 1960 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ بعد میں سنہ 1963 میں انہیں دوبارہ ریاض کے گورنر کے طور پر تعینات کیا گیا اور وہ سنہ 2011 تک اس عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کے دور میں ریاض ایک جدید اور ترقی یافتہ شہر کے طور پر ابھرا جس میں شہری منصوبہ بندی، تعلیمی اداروں اور بنیادی ڈھانچے میں نمایاں پیش رفت ہوئی۔
سنہ2011 میں شاہ سلمان کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے سعودی افواج کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
سنہ 2012 میں انہیں ولی عہد اور نائب وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد 23 جنوری 2015 کو شاہ سلمان سعودی عرب کے بادشاہ بنے۔ بادشاہت کے بعد انہوں نے ملک میں کئی اصلاحات متعارف کروائیں جن میں وژن 2030 خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ یہ منصوبہ سعودی معیشت کو تیل پر انحصار کم کرنے اور دیگر شعبوں کو فروغ دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: فیفا ورلڈ کپ 2034 کی میزبانی سعودی عرب کو مل گئی
شاہ سلمان کی حکمرانی کے دوران سعودی عرب نے انسانی حقوق اور سماجی اصلاحات کے میدان میں اہم اقدامات کیے۔ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی اور انہیں سماجی و اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مزید مواقع فراہم کیے گئے۔ ان کی قیادت میں کئی اہم منصوبے شروع کیے گئے جنہوں نے سعودی معاشرے کو عالمی معیار کے قریب تر کیا۔
شاہ سلمان کی انسان دوستی ان کے فلاحی کاموں سے جھلکتی ہے۔ انہوں نے کئی فلاحی ادارے قائم کیے اور عالمی سطح پر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ ان کے دور حکومت میں سعودی عرب نے کئی ممالک میں قدرتی آفات اور انسانی بحرانوں کے دوران امداد فراہم کی۔ ان کی یہ خدمات عالمی سطح پر قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔
سنہ89 سال کی عمر میں شاہ سلمان آج بھی سیاسی اور انتظامی امور میں فعال ہیں۔ ان کے بارے میں سعودی عوام کا یہ کہنا ہے کہ وہ قوم کے والد کی حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی دین، وطن اور عوام کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا فلسطین میں محفوظ انسانی اور امدادی راہداریوں کے قیام کا مطالبہ
سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں میں #الملك_سلمان_89_سنة کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے جس کے ذریعے سعودی عوام ان کے لیے نیک تمناؤں اور لمبی عمر کی دعائیں کر رہے ہیں۔
شاہ سلمان کی شخصیت بین الاقوامی سطح پر بھی بہت معتبر ہے۔ وہ عالمی سیاست کے اہم ترین رہنماؤں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی قیادت میں سعودی عرب نے خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا اور بین الاقوامی امن واستحکام کے لیے کئی اقدامات کیے۔ ان کی خدمات اور کارنامے سعودی عرب کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔