کرم امن جرگہ: اسلحہ جمع کرانے پر تحفظات، کیا معاہدہ ممکن ہے؟

منگل 31 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبر پختوا کے قبائلی ضلع کرم میں قیام امن کے لیے امن گرینڈ جرگہ شروع ہو گیا جس میں صوبائی حکومت دونوں جانب سے امن کے معاہدے میں دستخط کے لیے پر امید ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ضلع کرم کو درپیش بحران کے خاتمے کا امکان، متحارب فریقین بھاری ہتھیار جمع کروانے پر رضامند

جرگہ ضلع کوہاٹ میں کمشنر ہاؤس میں ہو رہا ہے اور حکام کے مطابق جرگہ ممبران اور قبائلی عمائدین پہنچ گئے ہیں جبکہ جرگے کی سر براہی کمشنر کوہاٹ معتصم با اللہ کر رہے ہیں۔

سڑکوں کو کھولنے کے حوالے سے خوشخبری ملے گی، ترجمان

ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف نے کرم جرگے کے حوالے سے بتایا کہ کوہاٹ میں کرم گرینڈ جرگہ 2 دن کے وقفے کے بعد ہو رہا ہے کیوں کہ جرگے نے ایک فریق کو مشاورت کے لیے 2 دن کا وقت دیا تھا۔

انہوں نے امید ظاہر کی آج فریقین کے درمیان معاہدے کا قوی امکان ہے اور دونوں تقریباً تمام نکات پر متفق ہیں۔

مزید پڑھیے: کرم: مسلح افراد کی مسافر گاڑیوں پر فائرنگ، 38 افراد جاں بحق، متعدد زخمی

ترجمان نے بتایا کہ خیبر پختونخوا حکومت تنازعے کے پائیدار اور دیرپا حل کے لیے کوشاں ہے جبکہ موجودہ حکومت کی کوششوں سے ایک صدی سے زائد پرانا تنازعہ پائیدار حل کے قریب ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنکرز اور اسلحے کے خاتمے سے علاقے میں مکمل امن قائم ہوگا اور اپیکس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق علاقے کو اسلحے سے پاک کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاہدے کے بعد سڑک کھولنے کے حوالے سے بھی خوشخبری ملے گی۔

امن معاہدے کے اہم نکات کیا ہیں؟

کرم امن جرگے نے معاہدے کے لیے ایک مسودہ تیار کیا ہے۔ جس کے لیے دونوں قبائل سے رائے لی گئی ہے اور جرگے کے گزشتہ اجلاسوں میں اس پر تفصیلی بات ہوئی ہے۔

14 نکاتی مسودے میں قیام امن کے لیے اپیکس کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں علاقے کو اسلحے سے پاک کرنے، نجی بنکرز مسمار کرنے، سفر کے لیے پاڑاچنار روڈ کو محفوظ بنانے، منتازع زمینوں کا مسلۂ جرگے سے حل کرنے سمیت دیگر نکات شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق دونوں جانب سے اسلحہ رضاکارانہ جمع کرنے کے حوالے سے تحفظات ہیں جو اب تک جرگے کے ذریعے امن  معاہدے کی راہ میں سب بڑی روکاٹ ہے۔

مزید پڑھیں: کرم کی واحد سڑک پر دہشتگردوں کا راج، رہائشی محصور، مریض موت سے دوچار

ایک مقامی رہنما نے بتایا کہ ایک عرصے سے علاقے جنگ جاری ہے اور دونوں قبائل کے پاس بھاری ہتھیار ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں جس کے سامنے حکومت بھی بے بس ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی افراد کا حکومت اور حکومتی اداروں پر کچھ زیادہ بھروسہ نہیں ہے۔

حکومتی ڈیڈلائن؟

کرم میں جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے صوبائی اپیکس کمیٹی نے یکم فروری تک تمام قبائل کو اسلحہ جمع کرنے کی ڈیڈلائن دی ہے جس کے بعد صوبائی حکومت نے جرگہ تشکیل دیا ہے تاکہ پر امن طریقے سے اسلحہ جمع ہو اور امن معاہدہ ہو۔

وزیر قانون اور کرم امن جرگہ ممبر افتاب عالم نے وی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کرم میں بہت زیادہ اور بھاری اسلحہ ہے اور ایرانی ساختہ راکٹ لانچر بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ صوبائی حکومت کے مطابق یکم فروری کے بعد کارروائی ہو گی اور اسلحہ جمع کرنے کے ساتھ بنکرز بھی مسمار کیے جائیں گے۔

برسر پیکار افراد آج کل جمع پونجی کس پر خرچ کر رہے ہیں؟

کرم کے کچھ لوگوں سے بات کی تو پتا چلا کہ اسلحہ خریدانے میں کتنا پیسہ لگایا گیا ہے۔ ایک مقامی رہنما نے بتایا کہ ان کے علاقے میں کشیدگی کے باعث وہ اپنی جمع پونجی اسلحہ خریدنے میں خرچ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ باہر ممالک جاکر محنت مزدوری کرکے بچوں اور خاندان کی کفالت کرتے ہیں لیکن ہمارے لوگ اسلحہ خریداری کے لیے خرچ کرتے ہیں۔

ایک اور رہنما نے بتایا کہ کرم میں مختلف قبائل کے پاس جدید اور بھاری اسلحہ موجود ہے اور مورچہ زن ہو کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

قیام امن اور آمدورفت کی بحالی اولین ترجیح ہے، حکومت

خیبر پختونخوا حکومت کا مؤقف ہے کہ کرم میں ایک عرصے سے جاری کشیدگی کا خاتمہ، قیام امن اور پاڑاچنار روڈ پر آمدورفت کی بحالی اولین ترجیح ہے جس کے لیے دونوں جانب متفق ہے اور اس پر عملی اقدامات جرگے کے ذریعے کیے جا رہے ہیں ۔

حکام کے مطابق جرگے کے ذریعے معاہدے کے بعد حکومت اس پر سختی سے عمل درآمد چاہتی ہے تاکہ دوبارہ ایسے حالات پیدا نہ ہو اور اس دوران شاملات کی زمین کا مسئلہ بھی حل کیا جا سکے۔

کرم میں تنازع شروع کس بات پر ہوا؟

قبائلی ضلع کرم میں 2 قبائل کے مابین تنازع ایک عرصے سے جاری ہے اور باقاعدہ مرچہ زن ہوکر ایک دوسرے کو نشانہ بناتے ہیں۔

تنازع شمالاتی زمین پر شروع ہوا تھا جو اب فرقہ وارانہ فساد کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ حالیہ تنازع چند ماہ پہلے پاڑاچنار جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر حملے سے شروع ہوا تھا جس میں 40 سے زائد لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے: کرم میں سیز فائر کے باوجود نقل مکانی جاری

اس کے جواب میں اگلے روز مسلحہ افراد مقامی گاؤں بگن پر حملہ آور ہوئے تھے اور گھروں اور بازاروں کو اگ لگادی تھی جس کی وجہ سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے اور پاڑاچنار پشاور روڈ بدستور بند ہے۔

اس صورتحال کے باعث علاقے میں ادویات اور اشیا خورونوش کی شدید قلت ہے جبکہ پاڑاچنار اور ملحقہ علاقوں کے مکین محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp