آئین کے مطابق بھی رولز معطل ہوتے ہیں ختم نہیں، جسٹس محمد علی مظہر

بدھ 8 جنوری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے کل تک ملتوی کردی ہے، درخواست گزار وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث اپنے دلائل کل بھی جاری رکھیں گے۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس محمد علی مظہر نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جسٹس منیب کی ججمنٹ سے پیراگراف پڑھ رہے تھے وہی سے شروع کریں۔

یہ بھی پڑھیں:فوجی عدالتوں کا کیس: آئین واضح ہے ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، جسٹس جمال مندوخیل

خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 233 کے 2 حصے ہیں ایک آرمڈ فورسز کا دوسرا سویلینز کا، عدالتی فیصلے کی بنیاد آرٹیکل 8(5) اور 8(3) ہے، جو مختلف ہونے کے باعث یکجا نہیں کی جا سکتیں، جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ آپ کا نکتہ کل سمجھ آچکا، آگے بڑھیں اور بقیہ دلائل مکمل کریں۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 233 بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل  کے مطابق آئین کے مطابق بھی رولز معطل ہوتے ہیں ختم نہیں، آرٹیکل 5 کے مطابق بھی حقوق معطل نہیں ہو سکتے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں سے سزا سپریم کورٹ کے اختیارات سے تجاوز ہے، عمر ایوب خان

خواجہ حارث نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے والا فیصلہ پڑھتے ہوئے بتایا کہ ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا سویلین کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے، اکثریتی فیصلے میں آرٹیکل 8(5) اور 8(3) کی غلط تشریح کی گئی ہے۔

اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کریں یا نہ کریں، جس پر خواجہ حارث کا موقف تھا کہ غلط تشریح کی بنیاد پر کہہ دیا گیا  ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے۔

مزید پڑھیں: آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی

خواجہ حارث کے مطابق فیصلے میں کہا گیا جرم سرزد ہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے اس لیے ان کا کیس الگ ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ موجودہ کیس میں 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی ہے لیکن  یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے۔

جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، آرمی ایکٹ میں سویلنز کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے یا نہیں، کیا یہ صرف مخصوص شہریوں کے لیے تھا، جس پر خواجہ حارث بولے؛ عام تاثر اس سے مختلف ہے۔

مزید پڑھیں: 9 مئی مقدمات میں فوجی عدالت سے سزا پانے والے 25 مجرموں کا مستقبل کیا ہوگا؟

اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل عام تاثر کو چھوڑ دیں یہ بتائیں سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے دریافت کیا کہ جب آرمی ایکٹ میں آتے ہیں تو کیا سارے بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حد تک ہو سکتا ہے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی کا موقف تھا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کیخلاف ٹرائل کے لیے تھا، کیا تمام سویلین کیساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے جیسے اے پی ایس سانحہ میں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ملٹری کورٹس: جو ملزمان بری ہوسکتے ہیں کریں باقی قانونی لڑائی چلتی رہے گی، سپریم کورٹ

جسٹس مسرت ہلالی نے یاد دہانی کرائی کہ پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے، جس پر وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث کا موقف تھا کہ بنیادی حقوق رہتے ہیں، اس بارے عدالتی فیصلے موجود ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ ملٹری کورٹس سے متعلق بین الاقوامی پریکٹس کیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے فوجی جوان شہید ہو رہے ہیں، ہمیں شہدا کا احساس ہے، سوال یہ ہے کہ ان شہدا کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے، کیا کوئی مخصوص سوچ کے حامل شہری کے خلاف بھی ملٹری کورٹس میں کیس چلے گا۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیخلاف فیصلہ پر اپیل: اٹارنی جنرل اصل فیصلہ میں غلطی دکھائیں، جسٹس محمد علی مظہر

خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس نعیم اختر افغان بولے؛ خواجہ صاحب لگتا ہے آپ کی تیاری مکمل نہیں ہے، عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم قرار دی ہیں، اگر ہم بھی ان دفعات کو کالعدم رکھیں پھر تو سویلین کا فوجی ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا۔

اگر ہم کسی اور نتیجے پر پہنچیں تو طے کرنا ہو گا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے، اب 2023 میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم بھی ہوچکی ہے، ہمیں اسی ترمیم کی روشنی میں بتائیں، کل جسٹس جمال مندوخیل نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لئے پوچھا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد کے لیے مثبت ثابت ہوگا؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی بلاشبہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، وہی قرار دے سکتی ہے کہ کیا کیا چیز جرم ہے، پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے، اس جرم کا ٹرائل کہاں ہو گا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق آئینِ پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے، کہا جاتا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے، میرے خیال میں آئین سپریم ہے، سوال یہ ہے کہ کون سے مقدمات ہیں جو آئین کے آرٹیکل 8 کی شق 3 کے تحت ملٹری کورٹس میں چلیں گے۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز کی ٹرائل کے فیصلے کیخلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے والا ی’یورگن واٹنے فریڈنس‘ کون ہے؟

ٹرمپ اور شہباز ملاقات سے بھارتی اثرورسوخ کو دھچکا لگا ہے، وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق

ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی نامزدگی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا کیا کردار ہے؟

کھیل رہے تھے تو ہاتھ بھی ملانا چاہیے تھا، کانگریس رہنما ششی تھرور کی بھارتی ٹیم پر تنقید

گھر کی تعمیر کے لیے 20 سے 35 لاکھ تک قرضہ کن شرائط پرحاصل کیا جا سکتا ہے؟

ویڈیو

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

وزیراعظم شہباز شریف کی امریکی صدر سے اہم ملاقات، ڈونلڈ ٹرمپ کو دورہ پاکستان کی دعوت، اہم منصوبوں پر تبادلہ خیال

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی